1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

یوکرینی جنگ کا امریکی ہتھیاروں کے ذخائر پر دباؤ

24 نومبر 2022

یوکرین میں جاری شدید لڑائی کے لیے ہتھیاروں اور گولے بارود کی مسلسل سپلائی نے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کو ہتھیاروں کے ذخیرے پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4K0n2
USA | HIMARS Raketenwerfer in einer Militärübung
تصویر: James Lefty Larimer/abaca/picture alliance

امریکی محکمہ دفاع میں اس وقت بحث یہ ہو رہی ہے کہ اگر اس وقت کہیں اور کوئی بڑی جنگ چھڑ جائے تو امریکہ ہتھیاروں کی ضرورت کیسے پوری کرے گا؟ پینٹاگون کے منصوبہ سازوں کے لیے یہ ایک اہم سوال ہے۔ پینٹاگون کے ماہرین جانتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ کئی برسوں تک جاری رہ سکتی ہے اور ایسے میں چین کے ساتھ کوئی جنگی تنازعہ پیدا ہوا، تو اس کے لیے ہتھیار کہاں سے آئیں گے؟

’ہم امریکی جنگی بحری جہازوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں،‘ چینی فوج

نیٹو۔ روس راست تصادم کا مطلب ہے 'تیسری عالمی جنگ'، امریکہ کی تنبیہ

روس یوکرین میں روزانہ بیس ہزار راؤنڈ فائر کر رہا ہے، جس میں خودکار رائفلوں سے لے کر ٹرک جتنے حجم کے کروز میزائل شامل ہیں جبکہ یوکرین جواب میں قریب سات ہزار راؤنڈز داغ رہا ہے۔ ان میں ایک سو پچپن ایم ایم کی گولیوں سے لے کر طیارہ شکن سٹنگر میزائل شامل ہیں۔

یوکرین کی زیادہ تر فائر پاور امریکی حکومت کی طرف سے بھجوائے گئے ہتھیاروں سے پوری ہو رہی ہے۔ امریکہ ہفتہ وار  بنیادوں پر ہتھیار اور دیگر جنگی سازوسامان  یوکرین بھجوا رہا ہے۔

بدھ کے روز بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کے لیے بیس ملین راؤنڈز کی اضافی مدد مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ چھوٹے ہتھیاروں کے لیے مہیا کی جانے والی گولیاں ہیں۔

پینٹاگون سے وابستہ مائیکل مک کورڈ کے مطابق، ''ابھی ہم ایسی پوزیشن میں بھی نہیں آئے کہ ہمارے پاس کچھ ہی دنوں کے ہتھیار بچے ہوں، مگر ہمیں اپنے ایک پارٹنر کی مسلسل مدد کرنا ہے۔‘‘

امریکہ کہ دفاعی سامان تیار کرنے والی سپلائی لائنیں کسی بڑی زمینی جنگ کی ضروریات پوری کرنے سے دور ہیں۔ مثلاﹰ سٹنگر میزائلوں کی تیاری بند پڑی تھی۔ اس سے امریکا کے ہتھیاروں کے ذخائر پر دباؤ بن رہا ہے۔

پینٹاگون کے لیے ہتھیاروں کی خریداری کے شعبے کے سربراہ بل لاپلانٹے نے گزشتہ ماہ جارج میسن یونیورسٹی ورجینیا میں ایک کانفرنس میں کہا، '' امریکہ کے ہتھیاروں کے ذخائر گو کہ بہت زیادہ ہیں، لیکن مثال کے طور پر اگر آجچین تائیوان پر حملہ کرے تو کیا ہو گا؟ یا اگر کوئی انڈو پیسیفک امریکی کمان پر حملہ آور ہو جائے تو کیا ہو گا؟ پانچ یا دس سال بعد نہیں بلکہ آج یا اگلے ہفتے؟‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ''ہتھیاروں کی تعداد اور گولے باردو کی مقدار کے تناظر میں ہم کیا کریں گے؟ کیا موجودہ ذخائر اس کے لیے کافی ہوں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن پر اس وقت ہم غور کر رہے ہیں۔‘‘

پیر کے روز امریکی فوج کے ہتھیاروں کے ذخائر کے شعبے کے نائب سیکرٹری ڈوؤ بش نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ''امریکی بحری فوج وہی ہتھیار استعمال کر رہی ہے، جو یوکرینی جنگ میں کارگر دیکھے گئے ہیں، یعنی تیزی سے حرکت کرنے والا توپ خانہ، راکٹ نظام ہیمارس، سٹنگر اور 155ایم ایم ہوئٹسر راؤنڈز۔ اب ہم ان ذخائر پر نظرثانی کر رہے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا، ''ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ کارگر ہتھیار ہم کتنی تیزی سے تیار کر سکتے ہیں اور دوبارہ سے ان کی مقدار جنگ سے قبل کی سطح پر لا سکتے ہیں۔‘‘

ع ت، ش ر (اے پی)