1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليم

یکساں تعلیمی نصاب، حکمرانوں کے قول و فعل میں کھلا تضاد

عبدالستار، اسلام آباد
13 اگست 2020

پی ٹی آئی حکومت کے وزراء کی طرف سے یکساں تعلیمی نصاب متعارف کرانےکی کوشش کو بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نصاب سے ملک میں تعلیم کا معیار بہتر ہوگا یا مزید خراب؟

https://p.dw.com/p/3guRp
Pakistan Karatschi | Coronavirus | Zu Hause lernen
تصویر: SEF

پاکستان کے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ نیا یکساں نصاب اگلے تعلیمی سال سے پورے ملک میں نافذ ہوگا اور اس کا نفاذ پہلی سے پانچویں جماعت  تک اردو میں ہوگا۔

اس نصاب تعلیم پر مختلف حلقوں کی طرف سے زبردست تنقید ہورہی ہے اورکئی یہ سوال کر رہے ہیں کہ آیا سیاست دان، جرنیل، ججز اور بیورکریٹس بھی اپنے بچوں کو یہ نصاب تعلیم پڑھائیں گے یا نہیں۔ یا پھر یہ نصاب صرف غریب بچوں کے حصے میں آئے گا، جن کی اکثریت سرکاری اسکولوں میں پڑھتی ہے؟

امیر اور غریب کے لیے الگ الگ تعلیم

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ نصاب امیر اور غریب سب بچوں کے لیے ہے۔ پارٹی کے ایم این اے محمد بشیر خان کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کہیں گے کہ پارٹی کے رہنما اور اراکین اسمبلی بھی اپنے بچوں کو یہ نصاب پڑھائیں، تو وہ سب لبیک کہیں گے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عمران خان نے اس نصاب کی برابری کے لیے بائیس سال جدوجہد کی اور اب یا امیر ہو یا غریب سب بچے یہ نصاب پڑھیں گے۔ اس کو ہم سرکاری اور نجی تمام اداروں میں نافذ کریں گے تاکہ تعلیم میں طبقاتی تفریق ختم ہو۔‘‘

Pakistan Bildungslücken im Land
تصویر: Reuters/C. Firouz

تبدیلی کی ابتدا اپنے گھر سے

ناقدین پی ٹی آئی کی اس پالیسی کو صرف دکھاوا قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طاقتور لوگوں کے بچے کبھی بھی یہ نصاب نہیں پڑھیں گے۔

نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر حکومت واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہے اور ان کی نظر میں یہ نصاب واقعی اتنا اچھا ہے تو اخلاقی طور پر سب سے پہلےعمران خان اپنے بچوں کو یہاں لائیں اور انہیں یہ نصاب پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کے گورنر محمد سرور، زلفی بخاری اور دوسرے پی ٹی آئی کے رہنما بھی اپنی اخلاقی برتری ثابت کریں اور لائیں اپنے بچوں یا خاندان کے بچوں کو یہ نصاب پڑھانے کے لیے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں ایک طبقاتی نظام تعلیم ہے، ’’جس میں اشرافیہ کے بچے یا تو انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں یا پھر بیرون ملک۔ وہ کبھی اپنے بچوں کو یہ نصاب نہیں پڑھائیں گے اور گھوم پھر کرسرکاری اسکولوں کے غریب بچے یہ نصاب پڑھیں گے اور آنے والے عشروں میں ملک میں مذہبی تنگ نظری اور عدم رواداری مزید بڑھے گی۔‘‘

Pakistan Kinder in Karatschi
تصویر: DW/Unbreen Fatima

قول و فعل کا کھلا تضاد

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں سیاست دان اور کاروباری لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے امریکا یا یورپ بھیجتے ہیں۔ بلاول بھٹو اور عمران خان خود برطانیہ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ معاشرے کے دوسرے طاقتور افراد کی بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا خیال ہے کہ سیاست دانوں اور دوسرے طاقتور افراد کا اس نظام میں کوئی اسٹیک نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’خود شفقت محمود صاحب نے ایسا کوئی نصاب نہیں پڑھا بلکہ موصوف امریکا سے پڑھ کر آئے تھے۔ نواز لیگ کے صدر شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز برطانیہ سے پڑھ کر آئے۔ پارلیمنٹ کا شاید ہی کوئی رکن ہو جسا کا بچہ سرکاری اسکول میں پڑھ رہا ہو۔ یہی حال نوکر شاہی کے افراد اور دوسرے طاقتور اداروں کے ملازمین کا ہے۔ کیونکہ ان کا اس سسٹم میں کوئی اسٹیک نہیں ہیں۔ اس لیے یہ آنکھ بند کرکے پالیسی بناتے ہیں۔‘‘

Pakistan Schulkinder an einer Schule der The Citizens Foundation
تصویر: TCF

تعلیمی بجٹ بڑھانے کی ضرورت

نواز لیگ پر الزام ہے کہ اس نے ماضی میں تعلیم کے شعبے کو بہت نظر انداز کیا اور دوکروڑ سے زائد بچے جو اسکول سے باہر ہیں، اس میں ایک بڑی تعداد پنجاب سے ہے۔

تاہم ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں سیاست دانوں کے بچوں کو بھی سرکاری اسکولوں میں ہی پڑھنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم کہتے ہیں کہ نہ صرف نصاب یکساں ہو بلکہ تمام اسکولوں میں سہولتیں بھی یکساں ہوں اور معیار تعلیم بھی اچھا ہو۔ اس کے لیے تعلیمی بجٹ کو بڑھانا چاہیے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے ہزاروں اسکولوں میں کئی سہولیات نہیں ہیں: ’’بے شمار ایسے اسکول ہیں، جن میں پینے کا صاف پانی، چار دیواری، بیت الخلا اور دوسری سہولیات نہیں ہیں۔ حکومت کو ان اہم مسائل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ن لیگ کسی بھی ایسے قانون کا خیر مقدم کرے گی، جس کے تحت معاشرے کے تمام افراد کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھیں۔‘‘