یہ انتخاب 'امریکی روح کی بقا کے لیے جنگ کے مانند ہے'
21 اگست 2020امریکا کے سابق نائب صدر جو بائیڈن نے ڈیموکریٹک پارٹی کے چار روزہ کنونشن کے آخری روز پارٹی کی جانب سے بطور صدارتی امیدوار کی نامزدگی کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا۔ 77 سالہ ڈیموکریٹ رہنما نے اس موقع پر اپنے اہم خطاب میں اتحاد قائم کرنے پر زور دیتے کہا کہ وہ تمام امریکیوں کی نمائندگی کریں گے۔
انہوں نے عوامی اتحاد کی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام امریکی شہریوں، جو انہیں ووٹ دیں گے اور جو نہیں دیں گے، سب کا احترام کریں گے۔''میں چاہتا تھا کہ امریکا کا صدر بنوں۔'' انہوں نے ان انتخابات کو ''امریکا کی روح کی بقاکے لیے جنگ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو ''امریکا کے لیے اس تاریک دور کا خاتمہ کر دیں گے۔'' انہوں نے کہا، ''امریکا کے آمروں کے ساتھ مدد کرنے کے دن اب بس ختم ہوچکے ہیں۔''
انہوں نے کہا کہ صدر بننے کے بعد ان کی سب سے پہلی ترجیح کورونا وائرس جیسی مہلک وبا سے نمٹنا ہوگا۔ ''اس وائرس کے حوالے سے سب سے بڑی ٹریجڈی یہ رہی کہ اس سے بچا جا سکتا تھا۔'' انہوں نے کہا کہ ان کی صدرات کے دور میں وفاقی سطح پر ماسک پہننا لازمی قرار کر دیا جائیگا۔
حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا چار روزہ کنونشن پیر 17 اگست کو شروع ہوا تھا۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کا یہ کنونشن پہلی بار مکمل طور پر آن لائن ہوا جس میں 50 ریاستوں کے ڈیموکریٹک رہنماؤں میں سے بیشتر نے فون کال کے ذریعے شرکت کی اور کئی اہم رہنماؤں کے پیغامات ویڈیو کلپ کے ذریعے پیش کیے گئے۔
کنونشن کے دوسرے روز منگل 18 اگست کو پارٹی نے صدارتی امیدوار کے لیے جو بائیڈن کے نام پر مہر لگا دی تھی اور تیسرے دن کمالہ ہیرس کو باضابطہ طور نائب صدراتی امیدوار کے لیے نامزد کیا گیا، جسے محترمہ ہیرس نے قبول کر لیا۔ وہ امریکی تاریخ میں اس عہدے کے لیے نامزد ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہیں۔ 55 سالہ کمالا ہیرس نے سابق صدر اوباما کے فوری بعد کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے جو بائیڈن کی حمایت کرنے کی اپیل کی تھی اور کہا کہ اس نازک موقع پر وہی امریکا کو ایک ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔
چار روزہ اس کنونشن کی اہم بات ملک کے تمام بڑے ڈیموکریٹ رہنماؤں کا ایک ساتھ آنا تھا جس میں سیاسی صورت حال اور مختلف امور پر پالیسیوں کے تعلق سے سیر حاصل بحث کی گئی۔ اس میں صحت سے متعلق اصلاحات اور 'بلیک لائیوز میٹر' جیسے کئی اہم امور پر تفصیل سے
بات چیت ہوئی۔ لیکن ان سب میں سب سے اہم کورونا وائرس کی وبا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور ان کی پالیسیاں تھیں جس کا سب سے زیادہ تذکرہ ہوا۔
کنونشن سے خطاب کرنے والوں میں پارٹی میں صدارتی امیدواری کے لیے بائیڈن کے حریف برنی سینڈرز بھی تھے جنہوں نے جو بائیڈن کی کھل کر حمایت کی۔ سابق صدر بل کلنٹن، باراک اوباما ان کی اہلیہ مشیل اوباما اور اوہائیو سے ریپبلکن پارٹی کے سابق گورنر جان کیشی سمیت کئی اہم لیڈر اور ڈیموکریٹ شخصیات نے اس کنونشن سے خطاب کیا اور بائیڈن کی حمایت کا اعلان کیا۔ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان دلچسپ مقابلے کی توقع ہے۔
لیکن صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن کے بیانات پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے ٹویٹر پر لکھا کہ وہ کبھی بدلنے والے نہیں ہیں۔ ''جن امور کے بارے میں جو بائیڈن اس وقت بات کر رہے ہیں انہوں نے گزشتہ 47 برسوں میں اس طرح کا کچھ بھی کام نہیں کیا ہے۔ وہ کبھی بدلیں گے بھی نہیں، یہ صرف الفاظ ہیں۔''
ص ز/ ج ا