’یہودی بستیوں کی تعمیر بند ہونی چاہیے‘، اولانڈ
18 نومبر 2013اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ تین سال کے وقفے کے بعد اس سال جولائی میں امریکا کی ثالثی کوششوں کے نتیجے میں بحال ہوا تھا۔ مذاکرات کی بحالی کے بعد سے اب تک اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں ہزاروں نئے رہائشی یونٹوں کی تعمیر کے منصوبوں کا اعلان کر چکا ہے۔ اتوار سے اسرائیل کے ایک سہ روزہ دورے پر گئے ہوئے فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے آج پیر کو اپنے دورے کے دوسرے روز رملہ میں فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’امن کی خاطر اور ایک سمجھوتے پر پہنچنے کی غرض سے فرانس آبادکاری کا سلسلہ مکمل اور حتمی طور پر روک دینے کے لیے زور دیتا ہے کیونکہ دو ریاستی حل اسی پر منحصر ہے۔‘‘
فلسطینی مذاکرات کار یہودی بستیوں میں توسیع کے اسرائیلی منصوبوں کے خلاف احتجاج کے طور پر مستعفی ہونے کی پیشکش کر چکے ہیں اور آج محمود عباس نے بھی ان بستیوں کو ’ایسا بڑا خطرہ‘ قرار دیا، ’جو امن عمل کو ختم کر سکتا اور اُسے ناکام بنا سکتا ہے‘۔ تاہم آج کی پریس کانفرنس میں عباس نے زور دے کر اس امر کا بھی اعادہ کیا کہ امریکا کے ساتھ ہونے والے اتفاقِ رائے کے تحت اسرائیل کے ساتھ پورے نو ماہ تک مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔
مغربی کنارے اور غزہ پٹی پر مشتمل ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے خواہاں فلسطینیوں کو ڈر ہے کہ بستیوں میں توسیع کے نتیجے میں اُن کی ریاست زندہ رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 2.5 ملین فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ پانچ لاکھ سے زیادہ یہودی بھی رہ رہے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے قبضے میں چلے جانے والے ان علاقوں میں یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔
جولائی کے اواخر سے جاری اسرائیلی فلسطینی مذاکرات میں اب تک کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا پہلی مرتبہ دورہ کرنے والے فرانسوا اولانڈ نے آج کہا کہ ’بستیوں میں توسیع کا عمل مذاکرات کو پیچیدہ اور دو ریاستی حل کے حصول کو مشکل بنا رہا ہے‘۔
آج رملہ میں فرانس اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین اقتصادی امداد اور ترقی کے سمجھوتوں پر دستخط بھی ہوئے۔ اس موقع پر اولانڈ نے کہا کہ فرانس نے امداد کے طور پر جتنی رقم فلسطینیوں کو فراہم کی ہے، اُتنی کسی دوسری قوم کو فراہم نہیں کی۔
ایک روز قبل جب اولانڈ اسرائیل پہنچے تو اُن کا پُر تپاک خیر مقدم کیا گیا۔ اسرائیل میں اُنہیں اس بناء پر پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے کہ ایک ہفتہ قبل اُنہوں نے جنیوا میں ایران کے ساتھ اُس کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عجلت میں کوئی سمجھوتہ ہونے سے روک دیا تھا۔ تل ابیب کے ہوائی اڈے پر وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اُن کا استقبال کرتے ہوئے اُنہیں اسرائیل کا سچا دوست قرار دیا:’’مسٹر پریڈیزنٹ، اسرائیل میں خوش آمدید۔ آپ اسرائیل کے ایک سچے دوست ہیں۔‘‘
نیتن یاہو نے ایران کے ساتھ مذکرات میں شریک ممالک پر زور دیا کہ وہ ایران کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتہ نہ کریں، جو اسرائیل کے نزدیک خطرناک ہو۔ جواب میں فرانسوا اولانڈ نے نیتن یاہو کو یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا:’’فرانس ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاملے میں لچک کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ جب تک ہمیں یہ یقین نہیں ہو جاتا کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں (کے حصول) سے دستبردار نہیں ہو جاتا، ہم اپنے مطالبات اور پابندیوں پر قائم رہیں گے۔‘‘
ایران کے ساتھ کسی ممکنہ ڈیل ہی کے سلسلے میں ایک بار پھر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ بات کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری آئندہ جمعے کو اسرائیل پہنچ رہے ہیں۔