اب بھی روزانہ دو سو نئے تارکین وطن جرمنی آ رہے ہیں
23 مارچ 2016خبر رساں ادارے روئٹرز کی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں روزانہ بنیادوں پر آنے والے نئے تارکین وطن کی تعداد اب دو سو کے قریب رہ گئی ہے، جو ماہانہ قریب چھ ہزار بنتی ہے۔
میرکل نے بالآخر مہاجرین دوست پالیسی پر یوُ ٹرن لے لیا
یورپ میں پناہ کے متلاشیوں میں اڑتالیس ہزار پاکستانی بھی
حالیہ عرصے میں آسٹریا اور بلقان کی متعدد ریاستوں نے پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں، جس کے بعد تارکین وطن کے لیے یونان سے جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک پہنچنا مزید مشکل ہو گیا تھا۔
ان اقدامات کے اثرات پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ وفاقی جرمن پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے مہینے میں اب تک 4587 تارکین وطن جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ہر روز اوسطاﹰ 208 نئے تارکین وطن جرمنی کی ریاستی حدود میں داخل ہو رہے ہیں۔
آج 23 مارچ بروز بدھ جرمنی کے شہر پوٹسڈام میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ روز محض 99 تارکین وطن جرمنی میں داخل ہوئے۔ ان تارکین وطن میں سے 65 افراد جنوبی جرمن صوبے باویریا پہچنے تھے۔
اس کے مقابلے میں پندرہ فروری تک روزانہ دو ہزار سے زائد پناہ گزین جرمنی آ رہے تھے۔ وسط فروری کے بعد تارکین وطن کی جرمنی آمد میں تیزی سے کمی دیکھی گئی۔ چھ مارچ تک یہ روزانہ تعداد دو ہزار سے کم ہو کر محض تین سو رہ گئی تھی۔
جرمن پولیس کے مطابق فروری کے مہینے میں یومیہ اوسطاﹰ تیرہ سو سے زائد تارکین وطن جرمنی آئے جب کہ جنوری کے مہینے میں مجموعی طور پر 65 ہزار سے زائد پناہ کے متلاشی افراد جرمنی پہنچے تھے۔ یومیہ بنیادوں پر یہ اوسط قریب دو ہزار بنتی تھی۔
سال 2015ء میں مجموعی طور پر دس لاکھ سے زائد تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے۔ گزشتہ برس کے آخری تین مہینوں کے دوران یومیہ سات ہزار سے زائد تارکین وطن جرمنی آئے تھے۔
دوسری جانب موجودہ صورت حال میں تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد یونان میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق غیر قانونی طور پر یونان آنے والے تمام پناہ گزینوں کو واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اتوار کے روز سے یونانی حکام نے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یونانی جزیروں پر پہنچنے والے تمام تارکین وطن اور مہاجرین کو حراست میں لینا شروع کر دیا ہے۔
ایتھنز حکومت نے ابھی تک واضح نہیں کیا کہ تارکین وطن کی ترکی ملک بدری کا عمل کب شروع کیا جائے گا۔ یونانی حکام کے مطابق اس ضمن میں انہیں عملی اور قانونی دشواریوں کے علاوہ وسائل کی کمی کا بھی سامنا ہے۔