ارشد ملک کی وفات: سیاسی اثرات اور قانونی پہلو
4 دسمبر 2020سابق جج ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو چار دسمبر سن دوہزار اٹھارہ کو العزیزیہ مل میں سات سال کی سزا دی تھی جب کہ انہوں نے نون لیگ کے رہنما کو ایک دوسرے مقدمے میں بری کر دیا تھا۔
اس فیصلے کے کچھ عرصے بعد جولائی سن دو ہزار انیس میں ارشد ملک کی ایک وڈیو نون لیگ کے رہنما ناصر بٹ کے ساتھ منظر عام پر آئی تھی، جس میں انہوں نے مبینہ طور پر اپنے اوپر دباؤ کا تذکرہ کیا تھا۔ نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں اس وڈیو کو دکھایا تھا اور دعوی کیا تھا کہ ان کے والد کو سزا دلوانے کے لئے جج ارشد ملک کو بلیک میل کیا گیا اور ان پر دباو ڈالا گیا۔
ارشد ملک نے اس وڈیو کو جعلی قرار دیا تھا۔ تاہم انہیں اگست سن دو ہزار انیس میں جج کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔متنازعہ پاکستانی جج ارشد ملک انتقال کر گئے
قانونی پیچدگیاں
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اس وفات سے کچھ قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی لیکن قانونی ماہرین کی اس حوالے سے رائے منقسم ہے۔ معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ اس وفات سے العزیزیہ ریفرنس کیس کے سلسلے میں درج کرائی جانے والی اپیل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "عدالت اپیل کو جج کی وفات کے بعد بھی چلا سکتی ہے اور قانونی طور پر اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔" نون لیگ کے رہنما سینیٹر پرویز رشید کا بھی یہی خیال ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مرحوم جج کی وڈیو ریکارڈ پر موجود ہے، تو ان کی وفات سے کیس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
تاہم کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے نون لیگ کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ اگر نون لیگ ارشد ملک کے خلاف وڈیو استعمال کرتی ہے، تو اس کو بھی بہت سے سوالات کے جواب دینے پڑیں گے۔ " وڈیو میں یہ واضح ہے کہ ن لیگ کے رہنما ناصر بٹ نے جج سے ملنے کی کوشش کی۔ اگر کوئی خود جج سے اس طرح ملے اور کیس پر بات چیت کرے تو یہ عدالت پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہے، جو خود ایک جرم ہے۔ ناصر بٹ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ انہیں کس نے بھیجا تھا اور بھیجنے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اپیل چلانے کے لئے نواز شریف کو سرنڈرکرنا پڑے گا۔ "اشتہاری کو عدالت ریلیف نہیں دیتی اور نہ ہی سنتی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف سرنڈر کریں گے کیونکہ اس کے بغیر تو کیس چلنا مشکل ہے۔"نواز شريف کی حوالگی کی درخواست: کیا حکومت کی خوش امیدی محض خوش فہمی ہے؟
سیاسی اثرات
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس وفات کے سیاسی اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں مر جانے والے پر الزام تراشی کو برا سمجھا جاتا ہے۔ " میرے خیال میں اس وفات سے ن لیگ کو سیاسی طور پر نقصان ہوگا۔ مریم کے پاس اس جج اور مقدمے کے حوالے سے مزید ویڈیوز ہیں۔ یہ وڈیوز رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتی تھیں اگر جج زندہ ہوتے اور ن لیگ ان کو عام کرتی لیکن اب ن لیگ کے لئے ایسی ویڈیوز عام کرنا مشکل ہو جائے گا اور ان پر اخلاقی دباؤ ہوگا کہ وہ انہیں لیک نہ کریں، جس سے ن لیگ کو سیاسی طور پر نقصان ہوگا اور وہ سزا کے خلاف ایک مضبوط دفاع عوامی سطح پر نہیں بنا سکیں گے۔"
معروف تجزیہ نگار حبیب اکرم بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ن لیگ پر اخلاقی دباو ہوگا۔ "اس کے علاوہ لوگ یہ بھی پوچھیں گے کہ ناصر بٹ وہاں کیا کرنے گئے تھے۔ ن لیگ کے مخالف کہیں گے کہ ن لیگ ایک ایسے شخص پر الزام لگا رہی ہے، جو وفات پا چکا ہے اور اپنا دفاع نہیں کر سکتی جس سے پارٹی ایک عجیب سے پوزیشن میں آجائے گی۔"
ن لیگ پر امید
تاہم ن لیگ عدالتی کارروائی کے حوالے سے مطمئن ہے۔ پارٹی کی رہنما عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ عدالت نے ارشد ملک کی وڈیو کا نوٹس لیا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "جس دن نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا تھا۔ اس دن انہوں نے کہا تھا کہ دنیا میں ایک عدالت اور ہے اور وہ ہے خدا کی عدالت۔ تو وقت نے نواز شریف کو صحیح ثابت کیا اور دنیا کے سامنے ان کی بیگناہی ثابت ہوئی۔ ہماری ہمدریاں ارشد ملک کی فیملی کے ساتھ ہیں اور ہم ان کی مغفرت کے لئے دعا گو ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا کیونکہ ویڈیوز عدالت کے ریکارڈ میں ہے۔ اس کے علاوہ بھی عدالت کسی بھی ریکارڈ کو طلب کر سکتی ہے۔"