1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: رواں سال کے دوران 600 غیر ملکی فوجی ہلاک

26 اکتوبر 2010

رواں برس افغان مشن کے لئے سب سے خطرناک سال رہا ہے۔ اس برس اب تک وہاں چھ سو غیرملکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، جو گزشتہ دس برسوں میں کسی بھی سال سے زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/Pntf
تصویر: AP

افغانستان میں نیٹو کی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس کے 521 فوجی گزشتہ سال ہلاک ہوئے تھے۔ اس مناسبت سے دیکھا جائے تو ابھی رواں سال کے دو ماہ باقی ہیں اور فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ ہلاکتوں کے اعتبار سے گزشتہ سال کو خوفناک سال قرار دیا جاتا تھا، تاہم رواں برس اور بھی زیادہ بدترین جا رہا ہے۔

Afghanistan ISAF Soldaten aus Kanada im Provinz Kandahar Hubschrauber
افغانستان میں تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ غیرملکی فوجی تعینات ہیںتصویر: AP

افغانستان میں اب تک دو ہزار 170 غیر ملکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاکتوں کا سلسلہ سن 2001 سے شروع ہوا تھا، جب انتہاپسندوں کے خلاف امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی فوجیوں کو افغانستان میں تعینات کیا گیا تھا۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی مزاحمتی سرگرمیوں میں کمی نہیں واقع ہوئی۔ غیر ملکی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد کی اگر سالوں کے ایام کے ساتھ اوسط نکالی جائے تو تقریباً دو فوجی روزانہ کی بنیاد پر ہلاک ہوئے ہیں۔

افغانستان میں کل ہلاک ہونے والے غیر ملکی فوجیوں میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک ہزار 348 ہے۔ انہی ہلاکتوں کی بڑھتی تعداد کے تناظر میں مزید 40 ہزار فوجی رواں سال کے دوران تعینات کئے گئے تھے۔ افغانستان میں تعینات کثیر الملکی فوج کی نفری ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے اور اس میں دو تہائی امریکی فوجی ہیں۔

ان دنوں امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج جنوبی افغان علاقے کے سب سے بڑے شہر قندھار کے قریب انتہائی شدید اور بڑے فوجی آپریشن میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب مختلف صوبوں میں سکیورٹی کی صورت حال کو مخدوش بتایا جاتا ہے۔ گزشتہ روز بھی خوست اور ہلمند میں بم حملوں میں تقریباﹰ نصف درجن افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ملٹری کارروائیوں میں پندرہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

افغانستان کا اندرونی خلفشار واضح طور پر ہمسایہ ملکوں پر اثر انداز ہو چکا ہے۔ سابق سوویت یونین سے آزاد ہونے والی جمہوریہ تاجکستان میں بھی گزشتہ دو ماہ کے دوران سکیورٹی صورت حال میں ابتری پائی گئی ہے اور اس کا ذمہ دار بھی افغانستان میں سرگرم انتہاپسندوں کے ساتھیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے تاجکستان کے صدر امام علی رحمان پیر کو کابل پہنچ چکے ہیں۔ ان کے دورے کے دوران گفتگو کا موضوع امن و سلامتی کی صورت حال ہے۔ گزشتہ ماہ تاجکستان میں ایک فوجی قافلے پر جہادیوں کے حملے میں کم از کم 28 تاجک فوجیوں کی ہلاکت کو رپورٹ کیا گیا تھا۔

NO FLASH Afghanistan Großoffensive U.S. Marines
گزشتہ برس بھی غیرملکی افواج کے لئے مشکل رہا تھاتصویر: AP

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں