افغانستان سے جرمن اور برطانوی فوجیوں کی واپسی
3 جولائی 2011برطانیہ کے اخبار سنڈے ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اس ہفتے کے آخر تک برطانیہ 800 فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلانے کا اعلان کر سکتا ہے۔ ان فوجیوں کو آئندہ سال کے آخر تک واپس بلایا جائے گا۔ برطانوی وزارت دفاع کے ترجمان نے بتایا ، ’وزیر اعظم یہ صاف کہہ چکے ہیں کہ سن 2015 تک برطانیہ کا کوئی بھی فوجی افغانستان میں جنگ کے لیے نہیں رہے گا اور یہی بہتر ہے کہ ہم فوج کے مشورے کے ساتھ فوجیوں کو جتنا جلدی ہو سکے واپس بلانا شروع کر دیں۔‘
برطانیہ نے رواں برس مئی میں اعلان کیا تھا کہ وہ 400 فوجیوں کو واپس بلائےگا ، جس کے بعد افغانستان میں اس کے کل 9 ہزار پانچ سو فوجی رہ جائیں گے۔ سنڈے ٹائمز نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم ڈیوڈ كیمرون بدھ کو اس بات کا اعلان کر سکتے ہیں کہ وہ فروری دو ہزار بارہ سے سال کے آخر تک 500 سے 800 فوجیوں کو واپس بلائیں گے۔
امریکہ کے بعد افغانستان میں سب سے زیادہ فوجی برطانیہ ہی کے ہیں۔ اس کے بعد تیسرے نمبر پر جرمنی ہے۔ اب تک افغانستان میں برطانیہ کے 374 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جرمن فوج کے سربراہ فولکر ویکر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جرمنی بھی اس سال کے آخر تک 500 فوجیوں کو واپس بلائےگا۔ جرمن ریڈیو کو دیا گیا یہ انٹرویو آج اتوار کو نشر کیا جائے گا۔ انٹرویو میں ويكر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ جرمنی ان فوجیوں کو واپس بلاےگا، جنہیں گزشتہ سال افغانستان بھیجا گیا تھا۔ جرمنی نے گزشتہ سال 500 فوجیوں کو افغانستان بھیجا تھا۔
جرمنی نے پہلے بھی افواج کے انخلاء کی بات کی گئی تھی لیکن تعداد کا ذکر نہیں کیا تھا کہ افغانستان سے کتنے فوجیوں کو کب واپس بلایا جائے گا۔ ابھی بھی جرمن افواج کے مکمل انخلاء کے بارے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی ہے۔
امریکہ نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے فوجیوں کو اس سال کے آخر سے افغانستان سے واپس بلانا شروع کرے گا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے وقت کی حد کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ اگلے سال کے وسط تک 33 ہزار فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ اس کے بعد افغانستان میں 70 ہزار امریکی فوجی رہ جائیں گے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف توقیر