کيا افغان فوج اور پوليس سلامتی کی ذمہ داری کی اہل ہیں؟
30 جون 2011ليکن سوال يہ ہے کہ کيا افغان حکومت يہ ذمہ داری سنبھالنے کے قابل ہے؟
پچھلے چند مہينوں سے افغانستان کی حکومت ملک بھر ميں يہ چرچا کررہی ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اور امن و امان کا کام سنبھالنے کی اہليت رکھتی ہے۔ کابل حکومت طاقت اور خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہےتاکہ ايک ايسے وقت جبکہ سلامتی کی ذمہ داری افغان حکومت کو منتقل کيے جانے کا آغاز ہو رہا ہے، کسی کو بھی افغان فوج اور پوليس کے عزم پر شبہ نہ ہونے پائے۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صديق صديقی نے کہا: ’’کابل ميں افغان پچھلے دو سال سے سلامتی کی ذمہ داری تنہا سنبھالے ہوئے ہيں۔ اگرچہ بين الاقوامی حفاظتی فوج بھی موجود ہے، ليکن وہ صرف ہنگامی صورتحال کے ليے ہے۔‘‘
صديقی نے کہا کہ افغان پوليس اور فوج کے کنٹرول ميں آنے والے علاقوں ميں بين الاقوامی حفاظتی فوج آئی سيف آئندہ بھی موجود رہے گی۔ اس کے علاوہ جن علاقوں ميں سلامتی کا افغان عملہ کمان سنبھالے گا وہ سب سے زيادہ پر سکون علاقے ہيں۔ صديقی کے خيال ميں اس ليے خطرہ صرف ايک حد تک ہی ہے۔
تاہم کابل سے دور واقع علاقوں ميں بعض مقامی سيا ستدانوں کو فکر ہے کہ کيا بين الاقوامی حفاظتی فوج کے انخلاء کے بعد بھی صورتحال مستحکم رہے گی؟ صوبے باميان کے نائب گورنر آصف مبلغی کو مرکزی حکومت کے منصوبوں پر شبہ ہے: ’’ہمارے تحفظ کا انحصار پڑوسی صوبے پر ہے۔ اگر پورے افغانستان ميں پوليس اور فوج کی طاقت ميں اضافہ نہيں ہوتا تو پھر ہم باميان کی سلامتی کی ضمانت بھی نہيں دے سکتے۔‘‘
يہی خيالات دوسرے علاقوں کے عہديداروں کے بھی ہيں جن کی ذمہ داری افغان سکيورٹی فورسز کے حوالے کيے جانے کا منصوبہ ہے، مثلاً مغرب ميں ہرات، شمال ميں مزار شريف، جنوب اور مشرق ميں لشکر گاہ اورمہتر لام۔ اس کے علاوہ وہ مقامی پوليس کے سا زوسامان کی کمی کا گلہ بھی کرتے ہيں۔
افغان سياسی ماہر قيوم مومند کا کہنا ہے کہ افغان پوليس اور فوج خود کو مختلف سياسی گروپوں کی وفادار سمجھتی ہے اور جب تک افغانستان ميں ايک ايسی قومی فوج اور پوليس وجود ميں نہيں آجاتی، جو پوری افغان قوم کی وفادار نہيں اُس وقت تک ملک ميں سلامتی قائم نہيں ہو سکتی۔
مبصرين کرزئی حکومت پر الزام لگاتے ہيں کہ وہ سلامتی کی صحيح صورتحال کے بارے ميں حقيقت ظاہر نہيں کر رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان بہت کمزور ہو گئے ہيں حالانکہ طالبان پہلے سے زيادہ طاقتور اور خطرناک بن چکے ہيں۔
رپورٹ: شامل رتبيل، ڈوئچے ويلے / شہاب احمد صديقی
ادارت: شامل شمس