افغانستان سے دستے واپس بلائے جائیں :IPPNW
26 اپریل 2010اِس کانفرنس سے اپنے خطاب میں ماربُرگ سے تعلق رکھنے والے جرمن افغان امور کے ماہر مارٹن باراکی نے کہا کہ غیر ملکی دَستوں کے خلاف ’وسیع تر مزاحمت‘ پائی جاتی ہے۔ باراکی نے اِس امر کی وکالت کی کہ افغانستان میں نیٹو کے دَستوں کی جگہ ناوابستہ ممالک کے فوجی تعینات کئے جائیں۔ باراکی کے مطابق افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔
مارٹن باراکی نے مزید کہا کہ پوری افغان قوم ایک صدماتی کیفت سے دوچار ہے اور وہاں معاشرتی زندگی تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ افغانستان کی تعمیرِ نو کے منصوبوں میں کامیابیوں کی خبروں پر شک و شبے کا اظہار کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’عوام کے ایک بڑے طبقے کو اِن منصوبوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا‘۔ مزید یہ کہ بڑی غیر سرکاری امدادی تنظیموں کو زیادہ تر مالی وسائل مہیا کئے جا رہے ہیں اور وہ ایک طرح کی دوسری حکومت کی حثیت اختیار کر گئی ہیں، اِس کے برعکس چھوٹی امدادی تنظیموں کو کچھ نہیں مل رہا۔
’’پاکس کرسٹی جرمنی‘‘ کے سابق سیکریٹری جنرل ر ائن ہارڈ فوس نے مطالبہ کیا کہ فوجی کارروائی کے متبادل کے طور پر سولین امن عمل اور خدمات کا دائرہ وسیع کیا جائے، فوجی اور انسانی بھلائی کی کارروائیوں کو الگ الگ کیا جائے اور فوجیوں کے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنے کی آزادی کے حق کی پاسداری کی جائے۔ تنظیم ’’پاکس کرسٹی‘‘ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فوس نے کہا کہ ’اب جنگیں کرنے کی نہ تو مزید کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ایسا کرنا ممکن رہا ہے‘۔
فوس نے جرمنی کے پروٹسٹنٹ چرچ کے مستعفی ہونے والے سربراہ مارگوٹ کیسمان کی اِس تجویز کا خیر مقدم کیا کہ پروٹسٹنٹ کلیسا کے اندر افغانستان کے موضوع پر بحث شروع کی جانی چاہیے۔ تاہم فوس نے اِس بات کو ہدفِ تنقید بنایا کہ جرمن پروٹسٹنٹ چرچ کی طرف سے کیسمان کے دستخطوں کے ساتھ اب جو بیان جاری کیا گیا ہے، وہ سالِ رواں کے آغاز پر اُن کی طرف سے ظاہر کئے جانے والے سخت موقف سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
بائیں بازو کی جماعت لیفٹ پارٹی کے سابقہ رکنِ پارلیمان اور بین الاقوامی قانون کے ماہر نورمن پیش نے کہا کہ افغانستان میں جرمن فوج کے مشن کے حامیوں نے اب اپنے دلائل تبدیل کر لئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جہاں سن 2001ء میں سیاستدان یہ کہہ رہے تھے کہ اِس مشن کا مقصد افغانستان میں جمہوریت متعارف کروانا اور انسانی حقوق کی پاسداری کروانا ہے، وہاں آج کل خاص طور پر جرمنی کے سلامتی کے مفادات اور ایٹمی طاقت پاکستان کی جانب سے درپیش خطرات کو اِس مشن کے اصل مقاصد بتایا جا رہا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اِس مشن کے لئے ماضی میں بتائے گئے مقاصد میں سے ایک باقی بچا ہے اور وہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ تاہم پیش کے مطابق دہشت گرد تنظیم القاعدہ، جس کے خلاف کارروائیاں سن 2001ء میں افغانستان مشن کا جواز بتائی گئی تھیں، اب مزید افغانستان میں موجود ہی نہیں۔ اب دہشت گردوں کے طور پر طالبان کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
افغانستان میں انسانی بھلائی کی سرگرمیوں میں کامیابیوں کی خبروں کے جواب میں پیش نے اقوامِ متحدہ کی طرف سے جاری کئے گئے وہ ا عدادوشمار پیش کئے، جن کی رُو سے اِس جنگ زدہ ملک میں غربت اور ناکافی خوراک کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ صحت و صفائی کی سہولتوں تک رسائی کے مواقع میں کمی ہوئی ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عابد حسین