افغانستان کی فراموش شدہ کہانیوں پر بنائی گئی فلمیں
4 دسمبر 2022گزشتہ برس افغانستان سے امریکہ کے اچانک انخلا اور طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اس تباہ حال ملک میں پیچھے رہ جانے والے انسانوں کی بہت سی کہانیاں قابل ذکر ہونے کے باوجود بھلا دی گئیں۔ اس رجحان کی ایک بہت بڑی وجہ یوکرین کی جنگ ہے۔ یہ جنگ بظاہر روس اور یوکرین کے مابین ہو رہی ہے تاہم پوری عالمی برادری اس سے متاثر ہوئی ہے۔
اس جنگ کے اثرات دور رس بھی ہیں اور ان کا دائرہ کار بھی بہت وسیع ہے۔ بہت سے مبصرین روس یوکرین جنگ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سب سے بڑا سیاسی بحران قرار دے رہے ہیں اور ماہرین اقتصادی امور کی نگاہ میں اس جنگ نے بڑی حد ''ورلڈ آرڈر ‘‘ کو تبدیل کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ امر تعجب کا باعث نہیں کہ 2021 ء میں افغانستان سے امریکی اور اُس کے اتحادیوں کے انخلا کے بعد اس ملک کی انتہائی سنگین صورتحال کے شکار ہونے والے بہت سے انسانوں کی کہانیاں بے حد المناک اور ناقابل فراموش ہونے کے باوجود یوکرین جنگ کی وجہ سے بھلا دی گئیں یا نظرانداز ہوئیں۔
سابق افغان وزیر کی جرمنی میں پیزا ڈیلیوری کی ملازمت
افغانستان کی فراموش شدہ کہانیاں
فلمساز ماتھیو ہائنیمن اور جرمن فلمساز مارسل میٹل زائفن کا مقصد ایسی کہانیوں کو منظر عام پر لانا اور بڑی اسکرین پر پیش کرنا، جو عشروں سے جنگ اور جارحیت کے شکار معاشرے کے جیتے جاگتے انسانوں سے متعلق ہیں مگر انہیں بھلا دیا گیا ہے۔
نیشنل جیوگرافک کی ''ریٹروگریڈ‘‘ یا باز گرد کے عنوان سے بننے والی فلم دراصل ایک افغان جنرل کے گرد گھومتی کہانی ہے، جس نے 2021 ء میں طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کی ناکام کوشش کی جبکہ نیٹ فلکس کی فلم ''ان ہینڈز‘‘ ملک کی سب سے کم عمر خاتون میئر کیکہانی بیان کرتی ہے، جسے طالبان انتہا پسندوں کا نشانہ بننے کے خوف سے بھاگنا پڑا۔
دونوں فلموں کی کہانیاں افغانستان سے امریکی انخلاء سے چند ماہ پہلے شروع ہوتی ہیں۔ دونوں کے مرکزی کردار اپنے ملک کے لیے ایک محفوظ اور زیادہ مساوی مستقبل کی تعمیر کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور دونوں فلموں کا اختتام وہاں پر ہوتا ہے، جب یہ دونوں مرکزی کردار بیرون ملک بیٹھ کر اپنے ملک میں طالبان کی سرگرمیوں کو دیکھنے پر مجبور ہیں اور باہر بیٹھ کر یہ منظر دیکھ رہے ہیں کہ کس تیزی سے طالبان ان کی محنت پر پانی پھیر رہے اور ان کے تمام کاموں کے نشان مٹا رہے ہیں۔
جنرل سامی سادات کی کہانی
''ریٹروگریڈ‘‘ کے ڈائریکٹر ماتھیو ہائنیمن کہتے ہیں،''ہم اس کہانی کو بھول گئے تھے۔ آخری بار کب ہم نے افغانستان کی جنگ کے موضوع پر بات کی تھی، یا اس کے بارے میں کوئی مضمون پڑھا تھا؟‘‘ ماتھیو کا مزید کہنا تھا،''ظاہر ہے کہ اب بھی اس کو کچھ کوریج مل رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ بہت سے لوگ اُس ملک کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جسے ہم نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘
ژوب بلوچستان سے اسمگل ہونے والے شہاب ثاقب کی کہانی
نیشنل جیوگرافک کی ''ریٹروگریڈ‘‘ یا باز گرد کے عنوان سے بننے والی فلم ایک ایسی دستاویزی فلم ہے، جو امریکی اسپیشل فورسز تک انتہائی مشکل اور نایاب رسائی پر مبنی ہے۔ ایک ابتدائی منظر میں امریکی فوجیوں کو دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنے سازوسامان کو تباہ کر رہے ہیں اور پیچھے ہٹ رہے ہیں اور اس اضافی گولہ بارود کو ضائع کر رہے ہیں، جن کی ان کے افغان اتحادیوں کو کبھی سخت ضرورت تھی۔ ہلمند میں امریکیوں کے اڈے سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان جنرل سامی سادات نے چارج سنبھال لیا اور طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی۔
اس دستاویزی فلم کے ایک منظر میں سادات اپنے ارد گرد کے حالات خراب ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اپنے جوانوں کو اکٹھا کر کے بضد ہیں کہ وہ لڑیں اور اپنے مشن کے لیے پرعزم رہیں۔ ڈائریکٹر ماتھیو ہائنیمن اس سین کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،''ہر ایک علامت یا نشان کہہ رہا تھا کہ رک جاؤ، ہار مانو، یہ ختم ہو گیا ہے اور اُسے یہ اندھا یقین تھا کہ شاید، شاید، اگر وہ لشکر گاہ یا ہلمند پر ڈٹے رہے تو طالبان کو شکست دے سکتے ہیں۔‘‘
آخر کار جنرل سادات کو بھاگنا پڑا اور فلم سازوں نے اپنے کیمروں کا رُخ دوبارہ کابل ہوائی اڈے کے مایوس کن مناظر کی طرف پھیر دیا۔ یہ منظر تھا افغانوں کی بےتابی کا، جب افغان باشندے آخری امریکی طیاروں میں جگہ کے لیے دست و گریباں ہو رہے تھے۔
جرمنی تا افغانستان: پاکستانی نوجوان کا داعش تک کا سفر
ہدایت کار ماتھیو ہائنیمن کے بقول،''یہ سب سے مشکل چیزوں میں سے ایک تھی، جس کا میں نے اپنے تمام کیریئر میں کبھی مشاہدہ کیا ہے۔‘‘ ماتھیو ہائنیمن کی فلم 'کارٹیل لینڈ‘ 2015 ء کے آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ عوامی پالیسی اور خارجہ پالیسی میں جنگوں کے بارے میں جو بات چیت کی جاتی ہے، اُس میں انسانی عنصر نہیں پایا جاتا ہے۔ ہائنیمن کے بقول،''میں نے اپنے پورے کیریئر میں جو کام کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ ان بڑے مگر مبہم موضوعات کو لے کر انہیں انسانی چہرے کی صورت پیش کیا جائے۔‘‘
ظریفہ غفاری کی کہانی
افغانستان کی ایک سابق میئر ظریفہ غفاری فلم ''ان ہینڈز‘‘ کا مرکزی کردار ہیں۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوں کہا،''طالبان کے دور میں افغانستان دنیا بھر میں واحد ملک ہے جہاں عورتیں اپنا جسم، اپنے بچے اور کچھ بھی بیچ سکتی ہیں لیکن اسکول جانے کے قابل نہیں۔‘‘ ظریفہ غفاری کے بقول، ''بین الاقوامی سیاسی اجلاسوں میں افغانستان بطور موضوع غائب ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
سابق میئر ظریفہ غفاری، جو قاتلانہ حملے میں بچ گئی تھیں، انہوں نے اپنے والد کو طالبان کے ہاتھوں گولی کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ طالبان کے اقتدار میں دوبارہ آنے سے پہلے کی بات ہے اور تب وہ افغانستان چھوڑ کر باہر آگئی تھیں۔ اُن واقعات کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں،''اس لمحے کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں اب بھی اپنے آنسو نہیں روک پاتی۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں،''یہ وہ چیز تھی، جو میں واقعی میں کبھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘‘ وہ تب 24 برس کی تھیں، جب انہیں میدان شہر کا میئر مقرر کیا گیا تھا اور اس تقرری کے بعد انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مہم چلائی۔ وہ کہتی ہیں،''میری کچھ ذاتی ذمہ داریاں تھیں، خاص طور پر اپنے والد کے قتل کے بعد، اپنے خاندان کو محفوظ بنانے میں مدد کرنا۔‘‘
پروڈیوسرز افغانستان واپس آئے اور انہوں نے غفاری کے سابق ڈرائیور معصوم کو فلمایا، جو اب بے روزگار ہے اور طالبان کے ماتحت رہ رہا ہے۔ انتہائی پریشان کن مناظر میں وہ انہی جنگجوؤں کے ساتھ جڑے ہوئے نظر آتے ہیں، جنہوں نے ایک بار غفاری کی کار پر حملہ کیا تھا اور اُس وقت وہ ڈرائیور معصوم ہی غفاری کی گاڑی چلا رہے تھا۔ ظریفہ غفاری نے کہا، ''معصوم کی کہانی افغانستان کے تمام بحرانوں کی کہانی کی نمائندگی کرتی ہے، لوگ آخر کیوں محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں دھوکہ دیا گیا۔‘‘
گرچہ افغانستان اور یوکرین کے تنازعات کی نوعیت بالکل مختلف ہے لیکن دونوں مذکورہ فلمیں اس بارے میں ایک محتاط کہانی پیش کرتی ہیں اور بتانا چاہتی ہیں کہ مغرب کی توجہ ہٹنے کے بعد کسی بحران زدہ خطے کا کیا ہو سکتا ہے؟ فلمساز اور ہدایت کار ماتھیو ہائنیمن کہتے ہیں کہ یہ پوری تاریخ میں ہوتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہوتا رہے گا لیکن ہم آخر اس تجربے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور انسانوں کی المناک کہانیاں
ظریفہ غفاری کا کہنا تھا،''جو کچھ یوکرین میں ہو چکا اور ہو رہا ہے، یہ وہی کچھ ہے، جس سے ہم 60 سالوں سے گزر رہے ہیں۔ وہی کچھ بار بار ہو رہا ہے۔ تو ہم ان کے دکھ میں شریک ہیں۔‘‘
ک م/ ا ا (اے ایف پی)