افغانستان: لاقانونیت کے خلاف ’ شیریں کا قانون‘
3 اپریل 2015مردوں کی اجارہ داری والے افغان معاشرے میں آج بھی خواتین کے ساتھ بہیمانہ سلوک اور تشدد روز مرہ کا معمول ہے۔ گزشتہ ماہ، مارچ کی انیس تاریخ کو ایک خاتون کو مبینہ طور پر قرآن کی بے حُرمتی کے جُرم میں کابل کے قلب میں زد و کوب کرتے ہوئے ہلاک کر دیا گیا۔
’’فرسودہ روایات اور قوانین کی حکم عدولی افغانستان جیسے ملک میں بہت بڑا خطرہ مول لینے کے مترادف ہے‘‘۔ یہ کہنا ہے لینا عالم کا جو بچپن میں ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ امریکا منتقل ہو گئی تھیں اور یہ پوری فیملی 2007 ء میں وطن لوٹی۔ لینا عالم ’ شیریں کا قانون‘ ڈرامے میں شیریں کا مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔
ڈرامے کی شوٹنگ
کابل کی ایک آلودہ، کثیف سی سڑک پر ڈائریکٹر تمام عملے کو شوٹنگ شروع کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ ’شیریں‘ ڈرامے کی ہیروئن سین میں داخل ہوتی ہے۔ سڑک پر پھیری والے اپنی اپنی اشیاء فروخت کر رہے ہیں۔ شیریں ان سے کچھ خریدنے لگتی ہے کہ اچانک اس کا شوہر آ جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی جابر اور ظالم سا مرد ہے۔ وہ شیریں کو زور سے پکڑ لیتا ہے تاہم شیریں کسی قسم کی فضولیات پر کان نہ دھرنے کے مستحکم ارادے کا اظہار کرتی ہے‘‘۔
شوٹنگ کے اگلے روز لینا عالم کا کہنا تھا، ’’ میرے لیے بھی یہ ایک خطرناک کام ہے۔ گزشتہ روز ہم باہر شوٹنگ کر رہے تھے۔ میں اپنے سین کی شوٹنگ سے خوفزدہ تھی۔ مجھے پورے وقت یہ خوف تھا کہ کسی بھی وقت کوئی آئے گا اور میرے جسم پر تیزاب پھینک دے گا یا کوئی مجھ پر چاقو سے وار کر دے گا۔‘‘
اس ڈرامے کی کاسٹنگ کے لیے کافی مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ ڈرامے کے پلاٹ کی تفصیلات جاننے کے بعد بہت سے اداکاروں نے ادا کاری سے انکار کر دیا۔ انہیں یہ کام بہت خطرناک اور چیلنجنگ لگا۔ اس ڈرامے کی ہیروئن شیریں کی ایک دوست کا کردار ادا کرنے والی ایک خاتون کو اُن کے شوہر نے زبردستی ڈرامے میں کام کرنے سے روک دیا کیونکہ انہیں ڈرامے کا پلاٹ پسند نہیں آیا، وہ اس ڈرامے سے خوش نہیں ہیں۔
ڈرامے کا تھیم
ٹیلی وژن ڈرامے ’ شیریں کے قانون‘ کے ہدایت کار اور ڈرامہ نگار ایک آسٹریلوی ’ ماکس والکر‘ ہیں۔ وہ ڈرامہ سازی کے لیے افغانستان آ گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈرامہ بنانے سے پہلے صلاح و مشورہ کر لیا تھا تاکہ ان کے ڈرامے سے افغانستان کا قدامت پسند حلقہ مشتعل نہ ہو۔ والکر نے بتایا، ’’میرا ڈرامہ اسکرپٹ اور اسے پیش کرنے کی تمام تر تفصیلات پر بہت تفصیل سے بحث ہوئی، صلاح و مشورے کیے گئے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ڈرامے میں کوئی ایسی چیز شامل ہو، جس سے کوئی بھی مشتعل ہو یا کسی کے احساسات مجروح ہوں اور ہمارے لیے کوئی مصیبت بنے اور ڈرامہ نشر ہونے نہ پائے۔‘‘
معاشرتی مسائل پر نکتہ چینی
ٹیلی وژن ڈرامہ ’ شیریں کا قانون‘ ایک 36 سالہ خاتون کی کہانی ہے، جس نے تنہا تین بچوں کی پرورش کی ہے اور انتہائی گھٹن زدہ اور پسماندہ افغان معاشرے میں رہ کر وہ ایک آزاد اور خود مختار زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ شیریں کابل کی ایک کورٹ میں بحیثیت کلرک کام کرتی ہے۔
افغانستان میں ایک عورت کا مضبوط کردار دکھانا افغان معاشرے کے عدلیہ کے نظام پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس معاشرے میں شدید بدعنوانی کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ لینا عالم جو ایک افغان اداکارہ ہیں اور متعدد افغان فلموں میں اداکاری کر چُکی ہیں، کہتی ہیں، ’’اس قسم کی ڈرامہ نگاری بہت مشکل کام ہے اس کے لیے بہت زیادہ ہمت اور جرات کی ضرورت ہے۔‘‘ لینا کا تاہم ماننا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ افغان معاشرے میں تبدیلی آئے۔ انہوں نے کہا، ’’تیس سال سے زائد عرصے کے بعد اب افغان عوام کو تعلیم و شعور دینے کی اشد ضرورت ہے، انہیں شیریں کے پیغام کی طرح بے باک اور سبق آمیز پیغام ملنا چاہیے۔‘‘ س ڈرامے کے آؤٹ ڈور سین کے علاوہ اسٹوڈیو کے اندر کورٹ روم اور شیریں کا گھر اور اُس کا دفتر بھی بنایا گیا ہے۔
ایشیا فاؤنڈیشن ڈیویلپمنٹ کے مطابق افغان ٹی وی پر 1996 ء سے 2001 ء تک ڈراموں پر پابندی عائد تھی تاہم اب قریب اٹھاون فیصد گھروں میں ایک ٹیلی وژن سیٹ پایا جاتا ہے۔ اس ملک میں اب ترک اور بھارتی ڈرامہ سیریل بھی پابندی سے نشر کیے جا رہے ہیں اور یہ بہت مقبول ہیں۔ شیریں کا قانون ان ڈراموں کے ساتھ سخت مقابلے میں ہوگا۔
افغانستان کے ٹیلی وژن پر اب جس قسم کے ڈرامے نشر ہو رہے ہیں اُن میں جبری شادی، خواتین کے ساتھ تشدد اور خاندانی تشدد جیسے موضوعات کو منظر عام پر لاتے ہوئے عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔