افغان جنگ کے دس سال
7 اکتوبر 201111ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کو ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملے شروع کر دیے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ طالبان اور القاعدہ کے خلاف جلد ہی کامیابی حاصل کر لی جائے گی۔
اس وقت واشنگٹن میں تو سورج طلوع ہو چکا تھا جبکہ افغانستان میں ابھی رات کی سیاہی چھائی ہوئی تھی، جب وائٹ ہاؤس میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے سات اکتوبر2001ء کے دن ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’میرے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ہماری فوج نے القاعدہ کے تربیتی مراکز اور طالبان کے فوجی اڈوں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔ امریکہ افغان عوام کا دوست ہے، ہم دنیا کے ایک ارب مسلمانوں کے بھی دوست ہیں۔ امریکہ صرف ان لوگوں کا دشمن ہے، جو دہشت گردی کے حمایتی ہیں اور جواپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لیے اس مذہب کا استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یقین تھا کہ افغانستان کو جلد ہی زیر کر لیا جائے گا اور ساتھ وہاں جمہوری اقدار پروان چڑھنا شروع ہو جائیں گی۔ لیکن اس دوران سیاسی منصوبہ بندی کا فقدان واضح طور پر دکھائی دیا۔ برلن میں اسلامی امورکے ماہر پیٹر ہائینے کے بقول افغانستان میں مداخلت نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحرک کردیا۔ ان کے بقول اس حملے کی وجہ سے مسلمان ہونے پر فخر کرنے اور مغربی ممالک کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام فروغ پا گیا۔ مسلمانوں میں یہ سوچ کہ مغربی ممالک اپنے ہر قسم کے مفادات کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں، تیزی سے پھیل گئی۔
ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد فوجیوں نے افغان مشن میں حصہ لیا۔ اس دوران اسکولوں، ہسپتالوں اور ملک کے بنیادی ڈھانچے پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ خاص طور پر نومبر2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دارالحکومت کابل کا نقشہ بدل گیا۔ مغربی قوتوں نے افغانستان، اس کی حکومت اور سلامتی کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے مالی تعاون فراہم کیا۔ لیکن امن، استحکام اور مصالحت سے یہ ملک ابھی کوسوں دور دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کے لیےسابق جرمن سفارت کار گنٹر مولاک کاشمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اُس دور میں کئی مرتبہ افغانستان کا دورہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اہم ترین بات یہ ہے کہ اب فوجی ذرائع استعمال کرتے ہوئے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اگر لوگوں کی ہمدردیاں اور دل جیتنے ہیں، تو تعمیر و ترقی کے شعبوں پر توجہ دینا ہو گی۔
اسامہ بن لادن مارا جا چکا ہے۔ افغانستان کے بجائے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں توجہ اب پاکستان، یمن اور صومالیہ پر مرکوز ہو گئی ہے۔ قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی 2014ء تک افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ساتھ ہی افغنستان کے معاملے میں پاکستان کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
افغان امور کے ماہر تھوماس روُٹنگ کہتے ہیں ’’ہم نے افغانستان سے یہ سبق سیکھا ہے کہ مقامی تنازعات کو ختم کرانے کے لیے ہمارے پاس کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ نہ تو اقوام متحدہ کامیاب ہو سکی اور نہ ہی نیٹو۔ اس کے علاوہ اور کوئی بھی ایسی تنظیم نہیں ہے، جو یہ کام کر سکتی ہو۔ اس بارے میں سوچ و بچارکرنا بہت ضروری ہے کہ اگر مستقبل میں ہمیں اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو اسے کس طرح سے حل کیا جائے گا۔‘‘
بہرحال اس دوران جنگ سے تباہ حال ملک میں نیا آئین متعارف کرایا گیا۔ ساتھ ہی اب تک افغانستان میں دو مرتبہ صدارتی اور دو مرتبہ ہی پارلیمانی انتخابات ہو چکے ہیں۔ مہاجرت کر جانے والے لاکھوں افغان اپنے وطن واپس آ گئے ہیں۔
رپورٹ: ساندرا پیٹرسمن/ عدنان اسحاق
ادارت: افسر اعوان