افغان مشن کے لئے پاکستان کا کردار اہم ہے، امریکہ
29 اپریل 2010پینٹا گون نے یہ بیان بدھ کو کانگریس کے سامنے پیش کردہ اپنی ایک رپورٹ میں دیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ایک لاکھ 40 ہزار فوجی قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کا آپریشن سرحد پار بھی اثرات رکھتا ہے، اس سے دشمن طاقتوں پر دباؤمیں اضافہ ہوا ہے اور افغانستان کے مشرقی علاقوں میں بھی ان کے ٹھکانے کم ہوئے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع ایک طویل عرصے سے اسلام آباد حکام پر دباؤ ڈالتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر طالبان اور القاعدہ رہنماؤں کے خلاف کارروائی کریں۔ اب اس کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں پاکستان کی جانب سے تعیناتیوں کے اس سلسلے کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
پینٹا گون کے مطابق بھارت کی جانب سے اپنی مشرقی سرحد سے پاکستان نے ایک لاکھ فوجی افغانستان کی سرحد پر منتقل کئے ہیں۔ رپورٹ میں اس پیش رفت کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان نے مقامی انتہاپسندوں کے خطرے کو تسلیم کیا ہے۔
پینٹا گون نے یہ رپورٹ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات سے محض ایک روز قبل جاری کی ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ نو ماہ میں پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ ہوگا۔
پینٹا گون نے پاکستان میں طالبان رہنماؤں کی حالیہ گرفتاریوں کو بھی سراہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر جیسے رہنماؤں کی گرفتاریوں سے شدت پسند اپنے ٹھکانوں کے محفوظ ہونے پر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں جبکہ ان کے مالی مسائل بھی بڑھ گئے ہیں۔
خبررساں ادارے روئٹرز نے امریکہ کے ایک اعلیٰ دفاعی عہدے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان میں گرفتاریوں سے افغانستان میں طالبان کے ہمدرد حلقےبھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ اس عہدے دار کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے طالبان کے لئے قیادت کا بحران تاہم دکھائی نہیں دیتا۔
اُدھر پینٹا گون کا کہنا ہے کہ پاکستان کا یہ کریک ڈاؤن اندرونی خطرات پر قابو پانے کے لئے ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا، ’افغانستان میں شدت پسندی پر قابو پانے کی کوششوں پر اس حکمت عملی کے فوری اثرات ظاہر نہیں ہوں گے۔ اس سے آئندہ مہینوں میں ایسے مواقع ضرور ملیں گے، جن سے افغانستان کے آپریشن میں مدد مل سکے، لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان میں جاری آپریشن کیا رخ اختیار کرتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: شادی خان سیف