اقوام متحدہ کو کشمیر پر 'گہری تشویش‘
8 اگست 2019اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے ترجمان نے کہا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لاگو تازہ پابندیوں سے وہاں انسانی حقوق کی صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی ہے۔
ٹویٹر پر اپنے ایک ویڈیو بیان میں انہوں نے کہا کہ تازہ پابندیوں کے بعد صورتحال نئی سطح پر چلی گئی ہے اور مواصلاتی نظام پر اس قدر مکمل پابندی پہلے نہیں دیکھی گئی تھی۔ ترجمان نے خبردار کیا کہ اس طرح کی پابندیاں لوگوں کو جموں و کشمیر کی مستقل حیثیت پر بات کرنے کے ان کے جمہوری حق سے محروم کرتی ہیں۔
وادی کشمیر میں پچھلے چار روز سے کرفیو جیسا ماحول ہے اور بھارت نے تمام مواصلاتی نظام بند کر رکھا ہے۔ سرکردہ کشمیری رہنما پہلے سے نظربند ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ بھارتی سکیورٹی فورسز نے اب تک پانچ سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
اپنے مختصر بیان میں عالمی کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کے ترجمان نے کشمیریوں پر عائد پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا البتہ انہوں نے بھارت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے متنازعہ فیصلے پر کچھ نہیں کہا۔
جمعرات کے روز پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے میڈیا بریفنگ میں عالمی برادی پر زور دیا کہ وہ بھارتی حکومت کے ’یک طرفہ اور غیرقانونی‘ کا نوٹس لے۔
پاکستان نے گذشتہ روز بھارت سے کہا کہ وہ اسلام آباد سے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلا لے اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ وہ بھی نئی دہلی میں اپنا ہائی کمشنر تعینات نہیں کرے گا۔ پاکستان نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بند کی جا رہی ہے اور باہمی متفقہ معاملات کا ازسر نو جائزہ لیا جائے گا۔ آج پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے وضاحت کی کہ ان اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان کرتارپور راہداری پرجاری کام متاثر نہیں ہوگا۔
جمعرات کے روز بھارتی حکومت نے ایک بیان میں پاکستان پر زور دیا کہ وہ سفارتی تعلقات میں کمی کے اپنے اعلان پر نظر ثانی کرے۔ تاہم بھارت نےایک بار پھر کہا کہ جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ نریندر مودی حکومت کا اصرار ہے کہ اس فیصلے سے خطے میں امن و استحکام لانے میں مدد ملے گی۔
بھارتی حزب اختلاف نے مودی حکومت کے اس متنازع فیصلے کو ایک تاریخی غلطی قرار دیا ہے۔ کشمیر سے متعلق قوانین میں تبدیلی کے حکومتی فیصلے کو بھارتی سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کردیا گیا ہے۔