امریکی اور برطانوی عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج
3 اکتوبر 2011امریکی اقتصادی مرکز نیویارک میں 'Occupy Wall Street' نامی تحریک سے وابستہ نوجوان گزشتہ تین ہفتوں سے فعال ہیں۔ نیو یارک پولیس قریب سات سو مظاہرین کو اس الزام پر حراست میں لے کر رہا کر چکی ہے کہ انہوں نے وال اسٹریٹ پر مظاہرے کا اجازت نامہ نہیں لیا تھا۔ مظاہرے کے منتظمین نے اعلان کیا ہے کہ اب بدھ کو وال اسٹریٹ پر ایک بار پھر دھرنا دیا جائے گا۔
عرب دنیا کے حالیہ جمہوری انقلابات سے متاثرہ امریکی نوجوانوں کی اس تحریک میں بڑے امریکی تجارتی اداروں اور امریکی سیاست میں اُن کے اثر ورسوخ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے ان نوجوانوں کا مؤقف ہے کہ امریکی حکومت بڑے مالیاتی اداروں کو بیل آؤٹ پیکجز دے رہی ہے اور عوام کا کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا۔
اس احتجاجی دھرنے میں شریک 39 سالہ پروفیسر Zephyr Teachout کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں یہ احتجاجی تحریک مالیاتی نظام میں وہ تبدیلیاں نہیں لا پائے گی، جس کا مطالبہ کیا جا رہا ہے مگر پھر بھی کوشش ضرور کی جانی چاہیے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی کارپوریٹ سیکٹر کے خلاف عوامی احتجاجات کا سلسلہ نیویارک سے نکل کر اب دارالحکومت واشنگٹن، بوسٹن، شکاگو، سان فرانسیسکو، لاس اینجلس اور نیو میکسیکو شہر تک پھیل چکا ہے۔
بڑے کارپورٹیٹ ادارں کے خلاف اس تحریک کا ایک نعرہ ہے، '' ہم اکثریت ہیں، ہم 99 فیصد ہیں اور اب ہم خاموش نہیں رہیں گے۔''
ادہر برطانیہ میں مزدور اتحاد سے تعلق رکھنے والے قریب 35 ہزار افراد نے حکومت کی جانب سے بجٹ میں کٹوتیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ نوکریوں اور انصاف کے مطالبے والے اس مظاہرے کے لیے مانچیسٹر شہر کا انتخاب کیا گیا تھا، جہاں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی قدامت پسند جماعت کنررویٹیو پارٹی نے اپنا سالانہ اجلاس شروع کیا ہے۔
پولیس کے مطابق اس احتجاجی ریلی میں مزدوروں کے مرکزی اتحاد اور بائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں نے حصہ لیا تھا۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کہہ چکے ہیں کہ وہ مشکل اقتصادی صورتحال کے باوجود یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں نہیں۔ ایک حالیہ انٹرویو میں کیمرون تسلیم کرچکے ہیں کہ یورو زون کا مالیاتی بحران نہ صرف اس 17ملکی اتحاد کے لیے بلکہ برطانیہ اور عالمی معیشت کے لیے بھی کسی خطرے سے کم نہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عدنان اسحاق