انٹرنیٹ کی بندش، کشمیریوں کے لیے ’پتھر کے دور‘ کی طرح
2 اکتوبر 2022بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے شائع ہونے والے ہفتہ وار جریدے 'دا کشمیر والا‘ کے رپورٹرز اور ایڈیٹرز کو ہر خبر اور آرٹیکل میں بیان کردہ حقائق کی چھان بین کرنا پڑتی ہے۔ صحافت میں یہ معمول کی بات ہے۔ مگر جب سن 2019 میں نئی دہلی حکومت نے ہمالیہ کے اس خطے میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات بند کر دیں، تو اس جریدے کے عملے کو متبادل راستہ تلاش کرنا پڑا۔
میگزین کے ایک ایڈیٹر یش راج شرما بتاتے ہیں، ''ہم آرٹیکلز میں، جن حقائق کی تصدیق نہیں کر پاتے تھے، وہ جگہیں ہم خالی چھوڑ دیتے تھے۔ پھر ہر ہفتے ٹیم کا ایک رکن نئی دہلی جاتا تھا اور حقائق جان کر خالی جگہیں پُر کرتا تھا۔‘‘
انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن: عالمی سطح پر بھارت کا ریکارڈ خراب ترین
امریکی میڈیا پر بھارت کی تنقید اور کشمیر پر مودی کے فیصلوں کا دفاع
پاکستانی وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب: کشمیر اور سیلاب موضوع
بندش کے وہ اٹھارہ ماہ اس خطے میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے درد سر ثابت ہوئے۔ شرما کو ایک واقعہ یاد ہے، جب وہ اپنا موبائل استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں آٹھ سو الفاظ پر مشتمل ایک نیوز آرٹیکل تحریر کرانے کے لیے سرینگر کے ہوائی اڈے پر ایک ٹیلی فون بوتھ تک جانا پڑ گیا تھا۔
پچیس سالہ شرما بتاتے ہیں، ''کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ کی بندش کے دوران کام کرنے کے تجربات و احساس کا وہ واقعہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔‘‘ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اپنی ای میلز پڑھنے اور ان کا جواب دینے کے لیے انہیں دہلی میں اپنے دوستوں کو فون کرنا پڑتا تھا۔
نئی دہلی حکومت نے پانچ اگست 2019ء کو ایک متنازعہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ اس مسلم اکثریتی علاقے میں بدامنی کے پیش نظر حکام نے سخت اقدامات نافذ کیے۔
حکام نے مواصلات کا مکمل بلیک آؤٹ کر دیا، جس میں فون اور انٹرنیٹ سروسز کی بندش بھی شامل تھی۔ یہ شٹ ڈاؤن پانچ فروری سن 2021ء تک جاری رہا، جب علاقے میں 4G موبائل ڈیٹا بحال کر دیا گیا۔ سست رفتار انٹرنیٹ ایک سال پہلے بحال کر دیا گیا تھا لیکن وہ بھی محدود رسائی کے ساتھ۔
کشمیر کے عمر رسیدہ شہریوں کے لیے یہ ماضی میں واپسی کے برابر تھا۔ ان کی جوانی کے دنوں میں خطوط اور لینڈ لائنز پر بات چیت ہوا کرتی تھی۔
نوجوانوں کو یہ 'پتھر کے زمانے میں رہنے‘ جیسا محسوس ہوا۔ 25 سالہ عمر مقبول نے ویڈیو کا کام شروع کرنے کے لیے بینک سے قرض لے کر کیمرے اور دیگر آلات خریدے تھے۔ یہ اگست سن 2019 کی بات ہے، جیسے ہی شٹ ڈاؤن شروع ہوا تھا۔ مگر انٹرنیٹ بحال ہونے تک انہیں کوئی بکنگ نہیں ملی اور قرض کی ادائیگی کے لیے انہیں خاندان کے اراکان اور دوستوں سے قرض لینا پڑا۔
مقبول جو کہ پانچ افراد پر مشتمل خاندان کی کفالت کرتے ہیں، نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ''میں نے اپنی ساری امیدیں کاروبار سے ہونے والی کمائی پر لگا رکھی تھیں لیکن میرے مقدر میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔‘‘
بھارتی حکومت نے گزشتہ سال کم از کم 106 بار انٹرنیٹ بند کرایا۔ ڈیجیٹل رائٹس گروپ ایکسس ناؤ کے مطابق یہ عالمی سطح پر چوتھا سب سے زیادہ شٹ ڈاؤن ہے۔ اس سے معیشت کو قریب 600 ملین ڈالر کا نقصان بھی ہوا۔ بندشوں میں سے کم از کم 85 جموں و کشمیر میں تھیں اور زیادہ تر کی وجہ سیکورٹی بتائی گئی۔
بھارت میں انتخابات کے دوران، احتجاج کے وقت، مذہبی تہوار اور امتحانات کے وقت بھی انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند کر دی جاتی ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے وکیل کرشنیش باپٹ نے کہا کہ ہندوستان میں انٹرنیٹ کو بند کر دینا انتہائی آسان ہے۔ وفاقی اور ریاستی افسران بغیر کسی پیشگی عدالتی اجازت کے بغیر ایسا کر سکتے ہیں۔
سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش دنیا کے کئی ممالک میں کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال 34 ممالک میں 182 مرتبہ انٹرنیٹ کو بند کیا گیا۔ اس سے پچھلے سال 29 ممالک میں 159 مرتبہ شٹ ڈاؤن کیا گیا۔ بھارت دنیا کے ان چند ہی ممالک میں سے ایک ہے، جن کے پاس 2017ء میں منظور کردہ ضابطہ اخلاق کے تحت انٹرنیٹ بند کیا جا سکتا ہے۔
سن 2020 میں بھارتی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ انٹرنیٹ تک رسائی ایک بنیادی حق ہے اور یہ کہ غیر معینہ مدت تک کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش غیر قانونی تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ انٹرنیٹ بند کرنے کی وجوہات کو پبلک کیا جانا چاہیے۔ اس کے باوجود حکام نے کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش جاری رکھی اور وہ بھی وجوہات بتائے بغیر۔
پچھلی ایک دہائی کے دوران کشمیر میں 400 سے زیادہ مرتبہ انٹرنیٹ بند ہو چکا ہے۔
ع س / ا ا (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)