’ایرانی جوہری معاہدے سے امریکی دستبرداری، خطرناک ہو سکتی ہے‘
12 اکتوبر 2017ڈوئچے ویلے کے نمائندہ خصوصی ماکس ہوفمان برسلز سے بھیجی گئی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی پیش رفت سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی جوہری معاہدے کے حوالے سے اپنے ہی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن کے نکتہ نظر کے برخلاف اس معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ یورپی یونین کی اعلیٰ ترین سفارت کار فیدریکا موگرینی کی بات پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں ہیں۔
مشرق وُسطیٰ معاملات کے ماہر کوئرٹ ڈیبوئف کے خیال میں ٹرمپ کے لیے یہ ’’انتہائی آسان ہے‘‘۔ لیکن ان کا یہ اقدام موگرینی کے لیے تسکین کا باعث یقیناﹰ نہیں ہو گا کیونکہ اس طرح سفارت کاری کے ذریعے مسائل حل کرنے کے فَن کا خاتمہ ہو جائے گا اور گفت وشنید کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کا جو ہنر یورپ نے دکھایا ہے، وہ سب غارت جائے گا۔
یورپی یونین کے ایک سفارت کار نے، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا، ’’پیغام یہ ہو گا: مصالحت نہ کرو! خاص طور پر مغرب کے ساتھ، جو کسی بھی طور اپنے وعدے پر پورا نہیں اترتا۔‘‘
مگر حقیقت میں یورپی ممالک کی یہ خواہش ہے کہ یہ معاہدہ قائم رہے، اس بات سے قطع نظر کہ امریکا کیا کرتا ہے۔
’’جوہری معاہدہ کسی ایک ملک سے تعلق نہیں رکھتا، اس کا تعلق بین الاقوامی برادری سے ہے۔‘‘ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیدریکا موگرینی نے یہ الفاظ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حاشیے میں امریکی نمائندگان سے ناخوشگوار بات چیت کے بعد کہے تھے۔
اگر ٹرمپ کی حکومت اس معاہدے سے نکل جاتی ہے اور ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کر دیتی ہے جبکہ یورپ اس معاہدے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سامنے آنے والے ورلڈ آرڈر کا اہم مقصد ختم ہو جائے گا۔ برسلز میں قائم تحریر انسٹیٹیوٹ فار مڈل ایسٹ پالیسی کے ڈائریکٹر کوئرٹ ڈیبوئف کے خیال میں یورپی یونین کو کسی بھی طور اس حوالے سے امریکا کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہییں، جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈیبوئف کا کہنا تھا، ’’یورپ کو ایران میں مزید سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ یہ یورپ کی معتبریت کے لیے بھی اہم اور ایران میں اصلاحاتی قوتوں کے لیے بھی۔‘‘ ڈیبوئف کے خیال میں اس کے نتیجے میں ٹرمپ کی طرف سے دباؤ کی توقع بھی کی جا سکتی ہے، خاص طور پر ایسی کمپنیوں کے خلاف پابندیوں کی صورت میں جو ایران کے ساتھ کاروبار کر رہی ہوں گی۔
دوسری طرف ایران اگر یہ محسوس کرتا ہے کہ امریکا چونکہ جوہری معاہدے سے نکل گیا ہے، تو وہ اس کے نتيجے ميں جوہری طاقت کے حصول کے حوالے سے خود پر لگی پابندیوں کی ذمہ داری سے الگ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں صورتحال مزید نا خوشگوار اور پیچیدہ ہو جائے گی۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ایران کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے شمالی کوریا کے ساتھ بھی جوہری معاہدے کا کوئی امکان باقی نہیں بچے گا۔
مشرق وُسطیٰ معاملات کے ماہر کوئرٹ ڈیبوئفکے مطابق، ’’یہ دراصل عالمی امن سے متعلق ہے۔ ہمیں ایران کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور تہران کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔‘‘ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک نہیں پہنچا۔