1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کے جوہری تنازعے پر اقوام متحدہ کا اگلا قدم

27 نومبر 2009

بین الاقوامی ایجنسی برائے جوہری توانائی 'آئی اے ای اے' کی جانب سے ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام پر ایک قرارداد پیش کی جا رہی ہے، جس میں یورینیئم کی افزودگی روکنے کے ساتھ ایران سے وضاحتیں بھی طلب کی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/KhQU
آئی اے ای اے کے سربراہ محمد البرادائیتصویر: AP

اس قرارداد کا فیصلہ ایجنسی کے پینتیس گورنروں کے ووٹ سے ہوگا۔ یہ قرار داد سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے ساتھ جرمنی نے پیش کی ہے۔ یہ چھ عالمی طاقتیں ایران کے جوہری تنازعے پر تہران حکام سے مذاکرات بھی کر رہی ہیں۔ قرار داد منظور ہوئی تو اقوام متحدہ کے اس ادارے کی جانب سے 2006ء کے بعد ایران کے خلاف یہ پہلی کارروائی ہو گی۔

Dossier Iran Atomprogramm Teil 2
مغربی ممالک کا موقف ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ہےتصویر: AP

خبررساں ادارے روئٹرز نے سفارت کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ قرارداد کی بھاری اکثریت سے منظوری کا امکان ہے۔ اس کا فیصلہ جوہری ایجنسی کے گورنروں کے اجلاس میں آج متوقع ہے، جو ویانا میں جمعرات سے جاری ہے۔

اس اقدام کو ایران کے یورینیئم کی افزودگی کے دوسرے پلانٹ کے منظر عام پر آنے اور تہران حکام کی جانب سے یورینیئم کی بیرون ملک افزودگی کی عالمی تجویز رد کرنے کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ویانا میں جاری 'آئی اے ای اے' کے اجلاس کے پہلے روز، اس کے سربراہ محمد البرادائی نے کہا کہ تہران حکومت نے تعاون نہ کیا تو اس کے جوہری پروگرام پر کی جانے والی تحقیق بے کار چلی جائے گی۔ انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ یورینیئم کی بیرون ملک افزودگی کے لئے جنیوا معاہدے پر عمل کرے۔ انہوں نے اس معاہدے کو منصفانہ اور متوازن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے لئے یہ موقع ہمیشہ نہیں رہے گا۔

اقوام متحدہ کی نئی قرارداد کے لئے چین اور روس کی حمایت کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے، جس سے ترقی پذیر ممالک بھی ایران کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔ یہ دونوں ریاستیں قبل ازیں ایران کے خلاف کسی سخت کارروائی کے سامنے رکاوٹ بنی رہی جبکہ تہران حکومت پر براہ راست تنقید سے بھی احتراز برتتی رہی ہیں۔

خبررساں ادارے روئٹرز نے ویانا میں سفارت کاروں کے حوالے سے کہا ہے کہ مغربی ممالک کی کوششوں سے قرارداد کے لئے چین کی حمایت حاصل کر لی گئی ہے۔ اُدھر روسی نائب وزیر خارجہ سیرگئی ریابکوف نے ماسکو میں ایرانی سفیر سید محمد رضا سے ملاقات میں کہا ہے کہ تہران حکومت جنیوا معاہدے پر عمل کرے۔

دوسری جانب 'آئی اے ای اے' میں ایران کے سفارت کار علی اصغر نے ایک جرمن روزنامے کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ قرارداد منظور ہوئی تو ایران جوہری ایجنسی کے ساتھ تعاون کم کر دے گا۔ انہوں نے کہا کہ قرارداد کی منظوری سے جوہری تنازعے کے حل کے لئے پائی جانے والی تعمیری فضا پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

Atom Gesprächen in Wien
آئی اے ای اے میں ایران کے سفارت کار علی اصغرتصویر: DPA

واضح رہے کہ ایران نے 'آئی اے ای اے' کو قم کے جوہری پلانٹ سے متعلق ستمبر میں آگاہ کیا تھا جبکہ اس کی تعمیر دو برس سے جاری تھی۔ IAEA کے بورڈ نے ایران کے خلاف ایک قرار داد فروری 2006ء میں منظور کی تھی۔ اس وقت تہران حکام نے یورینیئم کی افزودگی روکنے سے انکار کے ساتھ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو جوہری تنصیبات تک رسائی دینے میں بھی تعاون نہیں کیا تھا، جس پریہ تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے پیش کر دیا گیا تھا۔

امریکہ سمیت متعدد ممالک کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری منصوبے کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ہے۔ تاہم تہران حکام کا موقف ہے کہ منصوبہ پرامن مقاصد کے لئے ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید