بارہویں جنوب ایشیائی کھیلوں کا رنگا رنگ آغاز
5 فروری 2016جنوب ایشیائی ملکوں کا یہ اب تک کا سب سے بڑا کھیلوں کا مقابلہ ہے۔ بارہ روز تک چلنے والے ان مقابلوں میں تمام آٹھ رکن ممالک یعنی افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، سری لنکا، پاکستان، مالدیپ اور میزبان بھارت کے تقریبا پچیس سو ایتھلیٹس 23 مختلف مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
پانچ سو اکیس کھلاڑیوں پر مشتمل سب سے بڑا دستہ بھارت کا ہے، جب کہ پاکستان کےچار سو چھتیس، نیپال کے تین سو اکاسی اور بنگلہ دیش کے تین سو ستر کھلاڑیوں سمیت دیگر ملکوں کے ایتھلیٹس مجموعی طور پر سات سو چونسٹھ تمغوں کے لیے مقابلہ کریں گے۔
جنوب ایشیائی کھیل ہر دو سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔ گوکہ بارہویں جنوب ایشیائی کھیلوں کا انعقاد 2012ء میں نئی دہلی میں ہونا تھا تاہم مختلف اسباب کے بنا پر التواء کا سلسلہ چلتا رہا۔ پہلی مرتبہ اسے اس لیے ملتوی کیا گیا کیوں کہ 2012ء میں قومی دارالحکومت میں اسمبلی انتخابات ہونے تھے۔ اس کے بعد دسمبرسن 2012 میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے انڈین اولمپک ایسوسی ایشن میں حد سے زیادہ سرکاری مداخلت کے سبب اپنی رکنیت سے معطل کر دیا۔
فروری سن2014 میں جب معطلی ختم ہوئی تو میزبانی جنوبی ریاست کیرالہ کو سونپنے کا اعلان کیا گیا لیکن بات نہیں بنی اور بالآخر شمال مشرقی ریاستوں آسام اور میگھالیہ نے اس کی میزبانی قبول کی۔ پہلے اسے نومبر۔ دسمبر سن 2015 میں منعقد ہونا تھا لیکن اسے ایک بار پھر ملتوی کرنا پڑا ، اور آج جمعے کو کھیلوں کا افتتاح ہوا، جو سولہ فروری تک چلیں گے۔ یہ پہلا موقع ہے جب جنوب ایشیائی کھیل دو شہروں گوہاٹی اور شیلانگ میں منعقد ہو رہے ہیں۔
ان کھیلوں کے ابتدا سے ہی بھارت کا اس پر غلبہ رہا ہے جب کہ اس کا دیرینہ حریف پاکستان سات مرتبہ دوسرے نمبر پر رہا اور سری لنکا تین مرتبہ اور نیپال ایک مرتبہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سن 1984میں نیپال میں پہلے جنوب ایشیائی گیمز کے بعد سے سن 2010 کے ڈھاکا مقابلوں تک بھارت نے مجموعی طورپر نو سو گولڈ میڈل سمیت سترہ سو اٹھائیس تمغے جیتے ہیں۔
پاکستان نے تین سو گیارہ گولڈ میڈل سمیت ایک ہزار بائیس ، سری لنکا نے ایک سو پچاسی گولڈ میڈل سمیت نو سو اٹھائیس، نیپال نے 76 گولڈ میڈل سمیت چار سو تیرہ اور بنگلہ دیش نے تریسٹھ گولڈ میڈل سمیت پانچ سو بہترمیڈل حاصل کیے ہیں۔
پاکستان تئیس میں سے اکیس قابلوں میں حصہ لے گا۔ پاکستانی فٹ بال فیڈریشن میں جاری رسہ کشی کی وجہ سے پاکستان مرد اور خواتین فٹ بال مقابلوں میں حصہ نہیں لے رہا ہے جب کہ ہاکی، ہینڈ بال اور اسکواش میں وہ اپنے اعزاز کا دفاع کرے گا۔ پاکستانی خواتین پہلی مرتبہ باکسنگ، کبڈی اور ویٹ لفٹنگ میں بھی دکھائی دیں گی۔
والی بال میں پاکستانی خواتین کی ٹیم سن 1995 کے چینئی گیمز کے بعد دو دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ حصہ لے رہی ہیں۔ ہاکی میں پاکستان نے مضبوط ٹیم بھیجی ہے اور امید ہے کہ وہ جنوب ایشیائی کھیلوں میں اپنی جیت کی ہیٹ ٹرک مکمل کرے گی۔
بھارت تیسری مرتبہ ان کھیلوں کی میزبانی کررہا ہے۔ اس سے قبل سن 1987میں کولکتہ میں اور سن 1995 میں چینئی میں یہ مقابلے منعقد ہوئے تھے۔ تاہم افتتاحی تقریب سے صرف ایک دن قبل منتظمین کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب باسکٹ بال کی بین الاقوامی تنظیم ایف آئی بی اے نے بارہویں ایشیائی کھیلوں میں باسکٹ بال کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور باسکٹ بال مقابلوں میں حصہ لینے والے ملکوں سے کہا گیا کہ وہ اس میں حصہ نہ لیں۔
ایف آئی بی اے نے یہ فیصلہ بھارتی باسکٹ بال میں حکومت اور انڈین اولمپک ایسوسی ایشن کی مداخلت سے ناراض ہو کر کیا ہے۔ دراصل ایف آئی بی اے باسکٹ بال فیڈریشن آف انڈیا کے ایک دھڑے کو تسلیم کرتا ہے جب کہ انڈین اولمپک ایسوسی ایشن نے دوسرے دھڑے کو منظوری دے رکھی ہے۔ انڈین اولمپک ایسوسی ایشن سے منظور شدہ گروپ نے جب ٹیم کا اعلان کیا تو دوسرے گروپ نے بھی اپنی ٹیم کا اعلان کردیا۔ بہر حال چونکہ باسکٹ بال کے مقابلے گیارہ فروری سے شروع ہوں گے، اس لیے منتظمین کو امید ہے کہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔
سینئر اسپورٹس جرنلسٹ ہرپال سنگھ بیدی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جنوب ایشیائی کھیلوں میں اپنی دوسری پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گا لیکن افغانستان پر بھی سب کی نگاہ ہے۔ ملک کے کشیدہ حالات کے مدنظر بیشتر افغان کھلاڑیوں نے پاکستان یا دیگر یورپی ملکوں میں تربیت مکمل کی ہے اور وہ جنوب ایشیائی خطے میں ایک نئی طاقت کے طور پر ابھرے ہیں۔ افغان کھلاڑی نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے کھلاڑیوں کے لیے زبردست خطرہ ثابت ہوں گے کیوں کہ انہوں نے مختلف اسپورٹس میں اپنی کارکردگی کو بہتر کیا ہے ۔
بیدی نے مزید کہا کہ فٹ بال میں افغانستان ایک مضبوط دعویدار کے طور پر ابھرا ہے ۔ تیراندازی میں بھوٹان بھارت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے جب کہ دو بدو مقابلوں یعنی باکسنگ، کشتی، تائی کانڈو اور ووشو میں حالانکہ میزبان ملک کو قدرے بالادستی حاصل ہے تاہم اسے پاکستان، افغانستان اورنیپال سے زبردست مقابلے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
خواتین ہاکی اور فٹ بال میں بھارتی کھلاڑی آسانی سے بازی مار لیں گی۔ جب کہ میزبان ملک کو بیڈمنٹن، سائیکلنگ، ٹیبل ٹینس، ہینڈ بال، تیراکی، ویٹ لفٹنگ، کھوکھو، کبڈی، والی بال اور ٹرائی تھیلون میں بھی کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
ایتھلیٹکس میں سری لنکا، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال بھارت سے کچھ میڈل چھین سکتا ہے لیکن اس سے اس کے تمغون کی تعداد پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور امید ہے کہ وہ ڈھاکا کے پچھلے گیمز کے مقابلے زیادہ میڈل حاصل کر لے گا۔ پچھلے کھیلوں میں بھارت نے نوے گولڈ میڈل سمیت 175میڈل جیتے تھے۔