بحرین میں ہنگامی حالت ختم
1 جون 2011بحرین میں حکومت اب تک اپنے پڑوسی ممالک کی فوج کی مدد سے اپوزیشن کی تحریک کو دبانے میں کامیاب رہی ہے۔ بحرین کے دارالحکومت مناما کے بہت سے مقامات پر سعودی عرب کے پرچم دکھائی دیتے ہیں۔ شہر میں آویزاں متعدد بورڈز پر بھی سعودی بادشاہ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ بحرین کا حکمران طبقے کا اپنے حلیفوں اور پڑوسیوں کا شکریہ ادا کرنے کا یہ ایک طریقہ ہے۔ اس طرح مناما حکام نے نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا پر یہ باورکرا دیا کہ ان کے ملک میں کس کی بات مانی جاتی ہے۔ ملکی وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ نے چند دنوں قبل کہا تھا کہ یکم جون کے بعد صورتحال کو قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی بیرکوں میں واپس چلی جائے گی۔ تاہم پولیس چوبیس گھنٹے تیار رہے گی۔ کیونکہ یکم جون کے بعد کا وقت انتہائی نازک ہو گا۔ ’’ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہےکہ تمام معاملات صحیح رہیں۔ ہر قیمت پر افراتفری اور بدنظمی کودوبارہ پھیلنے سے روکا جائے‘‘۔
بحرین میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے نبیل رجب نے بتایا کہ بہت جلد یہ فیصلہ ہونے جا رہا ہے کہ کیا رواں سال بحرین میں فارمولا ون کار ریسنگ منقعد کرائی جانی چاہیے یا نہیں؟ ان کے بقول صرف اسی وجہ سے ہنگامی حالت ختم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارشل لاء ختم کرنے کے فیصلے کا تعلق ملکی سیاست سے نہیں بلکہ معاشی مفادات سے ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ہر حال میں فارمولا ون یہاں منقعد ہو۔ تا کہ وہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ بحرین میں زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔
بحرین میں حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینے کی پاداش میں تیس افراد ہلاک ہوئے، ایک ہزار سے زائد کو گرفتار کیا گیا، درجنوں لاپتہ ہو گئے اور کم از کم دو ہزار افراد کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
قطر سے تعلق رکھنے والے ماہر شادی حامد کے خیال میں بحرین کے مسئلے کو سیاسی سطح پر حل کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتےکہ بحرین جمہوریت کی جانب گامزن ہو گا یا واقعی ملکی نظام میں کوئی اصلاحات لائی جائیں گی۔ سعودی عرب نواز حکمران طبقہ اپوزیشن کے مطالبات سمجھنے سے قاصر ہے۔ فریقین کے درمیان ایک بڑا خلا موجود ہے۔
مارچ کے وسط سے بحرین میں ایک طرح کا مارشل لاء نافذ تھا، جسے بادشاہ نے قومی سلامتی کا نام دیا ہوا تھا۔ ہنگامی حالت کے خاتمے کے ساتھ ہی سڑکوں سے فوجی ٹینک ہٹ گئے ہیں لیکن سکیورٹی فورسز کے جوان موجود ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے فوجی اہلکاروں کو بھی ابھی واپس نہیں بھیجا گیا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : امجد علی