بریگزٹ: پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کا منقسم ردعمل
24 جون 2016برطانیہ میں یورپی یونین سے اخراج یا اس میں شامل رہنے سے متعلق تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد عوام نے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ پاکستان کے یورپی یونین اور برطانیہ دونوں کے ساتھ ہی اسٹریٹیجک، اور سیاسی تعلقات ہیں اور پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے۔
23 جون کو ہونے والے اس تاریخی ریفرنڈم میں پاکستانیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یورپی یونین سے اخراج کے فیصلے پر جہاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد خوش نظر آئی تو کئی پاکستانی اس فیصلے پر نالاں بھی ہیں۔
لندن میں ’ہول فوڈز‘ میں بطور منیجر کام کرنے والے زبیر احمد نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ ڈالا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ برطانیہ کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، یورپ سے تارکین وطن بڑی تعداد میں برطانیہ آ رہے ہیں جس سے وہاں کے لوگوں کو کئی مشکلات درپیش ہیں، جیسے کہ نیشنل ہیلتھ سروسز پر بڑھتا بوجھ، پبلک ٹرانسپورٹ میں بڑھتا رش، برطانیہ میں گھروں کی کمی اور ان کی بڑھتی قیمتوں جیسے مسائل۔ زبیر احمد کہتے ہیں کہ عام عوام کو یہی سمجھایا گیا ہے کہ یورپی یونین سے اخراج سے یہ مسائل ختم ہو جائیں گے اسی لیے برطانیہ کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے اخراج کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں۔
لندن میں ایک امریکی کمپنی میں کام کرنے والے آئی ٹی اسپیشلسٹ احسن جاوید ریفرنڈم میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے نتیجے سے مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے معیشت کے مستحکم رہنے اور اپنے جیسے کئی آئی ٹی پروفیشنلز کی نوکریاں قائم رہنے کے مقصد سے برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’1985ء کے بعد سے ڈالر کے مقابلے میں پاؤنڈ کم ترین سطح پر آگیا ہے عین ممکن ہے کہ برطانیہ کی معیشت کو نقصان پہنچے اور یہاں مزید مہنگائی ہو یہ برطانیہ کے لیے صحیح نہیں ہے‘‘
برطانیہ کے شہر لیوٹن کے رہائشی تیمور حسن فرنیچر کا کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا۔ تیمور نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ’’امیگریشن اور ٹیکس وہ دو وجوہات ہیں جس کی بنا پر میں یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں نہیں ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ میرے ساتھ کئی کاروبار کرنے والے افراد کو ریفرنڈم کے نتیجے سے نقصان تو ہوگا لیکن یہ نقصان عارضی ہے۔ طویل المدتی حساب سے یہ ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوگا۔‘‘
لندن میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ حسن مرزا برطانیہ کے فنانشل سیکٹر میں استحکام کو اس ملک میں اپنے اور اس صنعت سے جڑے افراد کے مستقبل کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ حسن نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یورپی یونین برطانیہ کا ایک اہم پارٹنر ہے۔ برطانیہ میں لوگوں نے اس لیے یورپی یونین سے اخراج کے لیے ووٹ دیا کیوں کہ ان کی رائے میں جو ساڑھے تین سو ملین پاؤنڈ یورپی یونین کو جارہے تھے، اب وہ نیشنل ہیتلھ سروسز کو ملیں گے لیکن آج ہی برطانوی سیاست دان نائیگل فراج نے ایک انٹریو میں کہا ہے کہ میں نے یہ پیسہ برطانیہ میں رہنے کا وعدہ تو کیا تھا لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ یہ رقم نیشنل ہیلتھ سروسزکو منتقل ہوگی۔‘‘ حسن مرزا کہتے ہیں کہ ان کے بہت سے جاننے والے جو بینکرز، ٹیکس کنسلٹنٹ اور وکیل ہیں وہ سب اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں اور برطانیہ کے اقتصادی مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔
جمعرات 23 جون کو ہونے والے اس ریفرنڈم میں ووٹنگ کی شرح 71.8 فیصد رہی اور تین کروڑ سے زیادہ افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔