برطانوی ریفرنڈم کے نتائج کی بازگشت پاکستان میں بھی
24 جون 2016’بریگزٹ‘ ریفرنڈم کے نتائج سے متعلق کوریج کے دوران پاکستان کے سبھی نجی ٹی وی چینلز نے اس خبر کو اپنے ہر بلیٹن میں انتہائی نمایاں جگہ دی اور ساتھ ہی ان اداروں اور تقریباﹰ سبھی اخبارات کی ویب سائٹس پر آن لائن نیوز کوریج میں بھی تازہ بہ تازہ تفصیلات مسلسل شامل کی جاتی رہیں۔
پاکستانی بازار حصص اور ملک کی کرنسی مارکیٹیں بھی ان نتائج کے اقتصادی اثرات محسوس کر رہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ ان نتائج کے مالیاتی اور اقتصادی اثرات پر بات چیت کرتے ہوئے اسلام آباد میں فلکی کیپیٹل نامی ادارے کے چیف فنانشل آفیسر فیصل فتح ملک نے کہا، ’’بین سطح پر برطانوی کرنسی پاؤنڈ کی قیمت متاثر ہوئی ہے اور پاکستان میں بھی ایسا ہوا ہے۔ آج سٹاک انڈکس 1400پوائنٹس تک گرا لیکن پھر تھوڑا سے سنبھل کر منفی 850 پوائنٹس پر بند ہوا۔ ٹیکسٹائل اور آٹو موبائل کا شعبہ بھی ان نتائج سے بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تیل کی قیمتیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ جن لوگوں کو ادائیگیاں کرنا ہیں، ان کو بھی شدید مشکلات کا سامنا پڑے گا۔ درآمدات اور برآمدات سے منسلک کاروباری افراد بھی متاثر ہوں گے کیونکہ سبھی بڑی عالمی کرنسیوں کی قیمتوں پر اثر پڑا ہے۔ اور پھر جب دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے، تو پاکستان بھلا کیسے بچا رہ سکتا تھا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں فیصل فتح ملک نے کہا کہ یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس ٹی پلس کا درجہ دیا تھا لیکن اب برطانیہ یورپی یونین سے نکل رہ ہے۔ ’’تو اب ہمیں برطانیہ سے الگ سے بات چیت کرنا پڑے گی، جو یقیناً آسان نہیں ہوگی۔ اس سے ایک غیر یقینی کیفیت بھی پیدا ہو گئی ہے۔ لوگ سوچ رہے ہیں کہ آج اگر برطانیہ یورپی یونین سے نکلا ہے، تو کل کہیں اٹلی یا اسپین بھی ایسا ہی نہ کریں۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اگر یونین کے مزید رکن ممالک نے بھی ایسا ہی کیا، تو پھر کیا ہوگا۔‘‘
اسلام آباد ہی میں اے اے منی چینجرز نامی ادارے کے یوسف شاہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’کل پاؤنڈ سٹرلنگ 156 روپے میں بک رہا تھا۔ آج اس کا ریٹ 145 روپے ہے۔ کل یورو 118.5 روپے کا تھا اور آج اس کی قیمت 116.5روپے ہے۔ یہ کمی یقیناً برطانوی ریفرنڈم کے نتائج کی وجہ سے ہوئی ہے۔ برطانوی پاؤنڈ کے ریٹ میں آنے والے دنوں میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔ دوسرے ممالک کی کرنسیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔‘‘
اسی بارے میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس کے معاشی اثرات تو پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ لیکن پاکستان میں لوگ ان نتائج سے زیادہ ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کو موضوع بحث بنائیں گے۔ حکومت پر پہلے ہی پاناما لیکس کے حوالے سے دباؤ ہے۔ حکومت کی مخالف سیاسی جماعتیں اب کہیں گی کہ دیکھو، وزیر اعظم ایسا ہوتا ہے، جو عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے فوراﹰ اپنے استعفے کا اعلان کر دے، جب کہ ہمارے ہاں جمہوریت میں لوگ اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں، چاہے ان پر کتنے ہی الزامات کیوں نہ لگے ہوں۔ تو ڈیوڈ کیمرون کا استعفیٰ پاکستانی اپوزیشن کے لیے شور مچانے کا آلہ بن جائے گا۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ کوئی اور سیاسی اثرات ان نتائج کے پاکستان پر مرتب نہیں ہوں گے۔ ہاں البتہ برطانیہ میں آباد پاکستانیوں کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ لیکن ان کی نوعیت کیا ہو گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔‘‘
’بریگزٹ‘ ہی کے موضوع پر معروف تاجر کریم چھاپڑا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری ہوم ٹیکسٹائل مصنوعات کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کے نکلنے سے یورپ میں لوگوں کی قوتِ خرید کم ہو جائے گی۔ تو اگر قوتِ خرید کم ہوگی، تو ہماری برآمدات بھی کم ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ ہمیں یورپی یونین نے جی ایس ٹی پلس کا درجہ بھی دیا تھا۔ اب اگر برطانیہ یونین سے نکل جائے گا، تو پاکستان کو برطانیہ سے الگ سے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔‘‘