1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: پرانے چہروں کا نیا انتخاب

24 جون 2018

مبصرین کے بقول سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس بار پھر روایتی چہروں کو پارلیمان تک لے جانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

https://p.dw.com/p/2zqoL
Islamabad - Verhandlung über die Wirtschaftkorridore
تصویر: DW/S. Raheem

پاکستان  کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی کاغذات نامزدگی کی منظوری کے مرحلے کی تکمیل کے ساتھ ہی سیاسی جماعتیں اور ان کےنمائندے انتخابی مہم کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر سیاستدان وہ ہیں، جو گزشتہ انتخابات میں بھی اسی قدر بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ سرگرم تھے۔ بعض سیاستدان ایسے ہیں جو ہمیشہ عوام کو مایوس کرتے ہیں لیکن ہمیشہ منتخب ہو جاتے ہیں۔

مبصرین کے بقول سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس بار پھر انہی روایتی چہروں کو پارلیمان تک لے جانے کی کوشش میں مصروف ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں میں مسلسل اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود عوام کو اپنی کارکردگی سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں دے سکے ہیں۔ بیشترسیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے منشور میں بیان کردہ ترجیحات اس مرتبہ بھی ان اہداف تک محدود کر رکھی ہیں جو کہ بظاہر تو عوام لیکن درحقیقت ان کی ذاتی مفادات کی حد تک ہی محدود ہیں۔

مثال کے طور پر تعلیمی ترقی کی دعویدار سیاسی اور مذہبی جماعتوں نےسابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں انتخاب لڑنے کے لیے رکھی گئی گریجویشن کی شرط ختم کروا کر اپنے ہی دعووں پر خود ہی کئی سوالات اٹھائے ہیں۔

بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اور جان پر کھیلتے کان کن

عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماء اورحالیہ تحلیل ہونے والی بلوچستان اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر ، زمرک خان اچکزئی کہتے ہیں کہ بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور کو صرف ووٹ کے حصول تک محدود کر رکھا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس وقت پاکستان اور بالخصوص بلوچستان جن بحرانوں سے دوچار ہے ان میں سب سے اہم کردار ان سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کا ہے جو بار بار اقتدار میں رہنے کے باجود اپنے وعدوں اور عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔ کوئی ملک کے لیے نہیں سوچتا۔ ترقی کے نعرے صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہی بلند ہوتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’گزشتہ 20 سالوں میں جو لوگ ان سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارمز سے منتخب ہو کر ایوانوں تک پہنچے ہیں ان کی ذاتی تعلیمی قابلیت کیا رہی ہے؟ جو لوگ خود ناخواندہ ہوں وہ تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے کس طرح کردار ادا کر سکتے ہیں؟ بلوچستان میں کسی بھی دور میں حقیقی بنیادوں پر نئی نسل کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ قدم اٹھایا نہیں گیا۔ دیہی علاقوں میں ایسے ہزاروں اسکول ملیں گے، جن کے لیے اربوں روپے قومی خزانے سے ہر سال نکالے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے اسکول صرف سرکاری ریکارڈ میں قائم ہیں، زمین پر ان اسکولوں کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔‘‘

ان کے بقول، ’’غالب امکان یہی ہے کہ اس بار بھی عام انتخابات میں وہی چہرے منتخب ہو کر سامنے ائیں گے، جنہیں سیاسی اور قبائلی اثرو رسوخ حاصل ہے۔ جو لوگ تبدیلی اور حقیقی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں انہیں آگے آنے سے ہمیشہ روکا گیا ہے،اس لیے اس بار بھی روکا جائے گا۔ پاکسان میں بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ کو حقیقی قیادت نہیں ایسے لوگ اقتدار میں چاہیئں جو اس کی جی حضوری کریں۔ جو لوگ انتخابات سے قبل بلوچستان کے حقوق کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے تھے، انہوں نے ہر شعبے میں اپنے لوگوں کو ہی نوازا۔‘‘

سیاسی میدان میں لوہا منوانے کے دعویدار بعض سیاسی رہنما ایسے بھی ہیں، جنہیں قومی خزانے سے اربوں روپے لوٹنے کے الزام میں نیب نے گرفتار بھی کیا لیکن ان پر بدعنوانی کے مزے لوٹنے والوں کی کرم نوازیاں ختم نہ ہوسکیں۔

بلوچستان کےسابق رکن اسمبلی خالد لانگوکا کیس بھی اس صورتحال سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ خالد لانگومحکمہ خزانہ میں اربوں روپے کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوئے تھے ۔ نیب نے ان کے خلاف بدعنوانی کا ریفرنس بھی دائر کیا لیکن ملزم کو بھی وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا۔

یہی نہیں کہ اس مقدمہ کو منطقی انجام تک اب تک نہیں پہنچایا گیا ہے بلکہ حالیہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجونے خالد لانگو کے بھائی ضیاء لانگو کو اپنا مشیر بنا لیا تھا۔ مبصرین کے بقول آئندہ عام انتخابات میں اسی فیصد سے زائد  امکان ایسے لوگوں کے دوبارہ منتخب ہوکرسامنے آنے کا ہے جو اب تک کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کر سکے ہیں۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں بلوچستان کی تین حکومتوں نے ایک ہزار چھ سو ارب روپے ترقیاتی اورغیر ترقیاتی مد میں خرچ کیے لیکن صوبے کی حالت میں کوئی بہتری سامنے نہ آ سکی ۔ اس کے برعکس، اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بلوچستان میں غربت  76 فیصد سے بڑھ کر86 فیصد ہو گئی۔ شرح تعلیم میں 6 فیصد اور بے روزگاری کی شرح میں 8 فیصد اضافہ ہوا۔         

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کوئٹہ میں مقیم سیاسی امور کے ماہر ندیم خان کہتے ہیں، ’’حقیقی قیادت کے چناؤ کے لیے عوامی شعور بہت اہم ہے۔ جب تک  اپنے فیصلے خود نہیں کریں گے، اس صورتحال میں بہتری کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے لوگوں کو منتخب کرکے اقتدار میں لایا جائے جو ذاتی مفادات کے بجائے پاکستان کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘

ندیم خان نے کہا کہ آنے والے عام انتخابات نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے مستقبل کے لیے بھی ہہت اہم کردار ادا کریں گےان کے بقول، ’’اس وقت پاکستان جن سنگین داخلی اور خارجی بحرانوں سے دوچار ہے ان کے خاتمے کے لیے ایک حقیقی قیادت کا ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنا بہت ناگزیر ہے۔‘‘

ندیم خان کا کہنا تھا، ’’ہر وقت مرکز پرالزام تراشی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی اورمحرمیوں میں ایک اہم کردار مقامی قیادت کا بھی ہے جو تمام تر دعووں کے باجود کبھی جامع انداز میں عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کچھ نہیں کر سکی۔ بلوچستان کو اس وقت این ایف سی سےبہت بڑی رقم مل رہی ہے لیکن کوئی بہتری دکھائی نہیں دیتی۔‘‘

پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک سینیئر صحافی اورغیرملکی نشریاتی ادارے کے مقامی سربراہ فرمان رحمان کہتے ہیں کہ انتخابات میں جمہوری اقدار کی پاسداری بہت ضروری ہے ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مذید کہنا تھا، ’’ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں موروثی سیاست کی جڑیں تو بہت گہری ہیں لیکن سیاسی قائدین ناپید ہیں۔ لوگ صداقت اورامانت کا لیبل لگا کرعوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں بہت ماہر ہوچکے ہیں۔ جو لوگ سیاست کو اپنا ذریعہ معاش سمجھتے ہیں وہ عوامی نمائندگی کا حق کبھی ادا نہیں کر پاتے۔ مفاد پرستوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے ایک موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔‘‘

فرمان رحمان نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کتنا تقسیم ہے اس کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جن سیاسی جماعتوں کو رجسٹرڈ قرار دیا ہے، ان کی تعداد 334 سے زائد ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں