1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاستدان کے کہنے پر سات قتل، چھبیس افراد کو سزائے موت کا حکم

مقبول ملک
16 جنوری 2017

بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے اس سماعت کے بعد کہ کسی طرح حکمران سیاسی پارٹی کے ایک رہنما نے ملکی سکیورٹی فورسز کے ایک ایلیٹ یونٹ کو اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کروانے کے لیے استعمال کیا، چھبیس ملزمان کو موت کی سزا سنا دی ہے۔

https://p.dw.com/p/2VrI9
Rapid Action Battalion (RAB) in Bangladesh
جن چھبیس مجرموں کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا، ان میں ریپڈ ایکشن بٹالین کا ایک کمانڈر طارق سعید بھی شامل ہےتصویر: DW

ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے پیر سولہ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پورے بنگلہ دیش میں عوام کی نظریں اس مقدمے کی طرف لگی ہوئی تھیں، جس میں ایک عدالت نے اپریل 2014ء میں وسطی بنگلہ دیش کے شہر نارائن گنج میں سات افراد کے اغوا اور قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں تمام 35 ملزمان کو مجرم قرار دے دیا۔

نارائن گنج میں اس مقدمے کی سماعت ایک سال تک جاری رہی، جس کے اختتام پر جج سید عنایت حسین نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے 35 میں سے 26 ملزمان کو سزائے موت کا حکم سنایا جبکہ باقی ماندہ نو ملزمان کو سات اور 17 برس کے درمیان قید کی سزائیں سنائی گئیں۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ عدالت کی طرف سے فیصلہ سنائے جانے کے وقت کمرہء عدالت پوری طرح بھرا ہوا تھا اور 35 میں سے 23 ملزمان بھی عدالت میں موجود تھے جبکہ باقی ماندہ 12 ملزمان کو یہ سزائیں ان کی غیر حاضری میں سنائی گئیں۔

2014ء میں پیش آنے والے اس واقعے میں عینی شاہدین نے پولیس کو بتایا تھا کہ انہوں نے شہر کے انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیدیم کے باہر سے کئی ایسے افراد کو اغوا ہوتے ہوئے دیکھا تھا، جنہیں زبردستی ایک ایسی وین میں سوار کرایا جا رہا تھا، جس پر کوئی نمبر پلیٹ نہیں لگی ہوئی تھی۔ اس اغوا کے تین روز بعد ان افراد کی لاشیں ایک مقامی دریا میں تیرتی ہوئی ملی تھیں۔

Bangladesch Prozess Nur Hossain in Narayanganj
سات افراد کے قتل کا حکم دینے والا نارائن گنج میں عوامی لیگ کا مقامی سیاستدان نور حسین، جسے عدالت سے باہر لایا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/NurPhoto/Z.H. Chowdhury

ڈھاکا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس مقدمے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سماعت کے دوران عدالت کو پتہ چلا تھا کہ کس طرح ملک میں حکمران جماعت عوامی لیگ کے ایک سیاستدان نے ملک کی ایک ایلیٹ سکیورٹی فورس کے اہلکاروں کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو پہلے اغوا اور پھر قتل کروایا تھا۔

جن 26 ملزمان کو عدالت نے موت کی سزا سنائی، ان میں ملک کی ریپڈ ایکشن بٹالین یا RAB نامی اسپیشل فورس کا ایک کمانڈر طارق سعید بھی شامل ہے، جو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی کابینہ کے رکن ایک وزیر کا داماد بھی ہے۔

اس مقدمے کی کارروائی کے دوران ریاستی دفتر استغاثہ نے عدالت کے سامنے یہ ثابت کر دیا تھا کہ کس طرح نارائن گنج کے ایک سیاسی کونسلر نور حسین نے، جو اس وقت وزیر اعظم شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ کا ایک سیاستدان تھا، ریپڈ ایکشن بٹالین کےکئی افسران کو پیسے دے کر اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ نور حسین کے ایک بڑے سیاسی حریف نذرالاسلام اور اس کے چار قریبی ساتھیوں کو اغوا کر کے قتل کر دیں۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان افراد کے اسٹیڈیم کے باہر سے اغوا کے واقعے کو جس مقامی وکیل نے اتفاقاﹰ ایک موبائل فون پر ویڈیو فوٹیج کی صورت میں ریکارڈ کر لیا تھا، اسے بھی بعد ازاں اس کے ڈرائیور سمیت اغوا کر لیا گیا تھا۔

عدالتی ریکارڈ کے مطابق ان تمام سات افراد کو بعد ازاں قتل کر دیا گیا تھا اور پھر تیز دھار آلوں سے ان کے پیٹ کاٹ کر ان کی لاشیں نارائن گنج کے باہر دریائے شیتالکشیا میں پھینک دی گئی تھیں۔

Sheikh Hasina Wajed Premierminister Bangladesch 10. Asem Summit in Mailand
ریپڈ ایکشن بتالین کا کمانڈر طارق سعید جسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا، وزیر اعظم شیخ حسینہ (تصویر) کی کابینہ میں شامل ایک ملکی وزیر کا داماد ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Bildfunk

اس واقعے کا مرکزی ملزم نور حسین، جس نے اس قتل کا حکم دیا تھا، اس جرم کے ارتکاب کے بعد فرار ہو کر ہمسایہ ملک بھارت میں روپوش ہو گیا تھا۔ بعد ازاں اسے کولکتہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا اور بھارتی حکام نے اسے ملک بدر کر کے بنگلہ دیش کے حوالے کر دیا تھا۔ آج پیر کے روز فیصلہ سنائے جانے کے وقت نور حسین بھی ذاتی طور پر عدالت میں موجود تھا۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ نارائن گنج کی عدالت میں آج فیصلہ سنائے جانے کے وقت عدالت کے باہر امن عامہ کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے اور وہاں کسی بھی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے سینکڑوں پولیس اہلکار تعینات تھے۔

ڈھاکا سے ملنے والی دیگر رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ملکی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو سزائیں سنائے جانے کا کوئی واقعہ بہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے۔ ان سکیورٹی اہلکاروں کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اکثر ماورائے عدالت انسانی ہلاکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور ملک میں پائے جانے والے بدعنوانی، تشدد اور جرائم کے ماحول میں بالعموم بڑی آسانی سے سز اؤں سے بچ بھی جاتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں