سیاستدان کے کہنے پر سات قتل، چھبیس افراد کو سزائے موت کا حکم
16 جنوری 2017ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے پیر سولہ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پورے بنگلہ دیش میں عوام کی نظریں اس مقدمے کی طرف لگی ہوئی تھیں، جس میں ایک عدالت نے اپریل 2014ء میں وسطی بنگلہ دیش کے شہر نارائن گنج میں سات افراد کے اغوا اور قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں تمام 35 ملزمان کو مجرم قرار دے دیا۔
نارائن گنج میں اس مقدمے کی سماعت ایک سال تک جاری رہی، جس کے اختتام پر جج سید عنایت حسین نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے 35 میں سے 26 ملزمان کو سزائے موت کا حکم سنایا جبکہ باقی ماندہ نو ملزمان کو سات اور 17 برس کے درمیان قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ عدالت کی طرف سے فیصلہ سنائے جانے کے وقت کمرہء عدالت پوری طرح بھرا ہوا تھا اور 35 میں سے 23 ملزمان بھی عدالت میں موجود تھے جبکہ باقی ماندہ 12 ملزمان کو یہ سزائیں ان کی غیر حاضری میں سنائی گئیں۔
2014ء میں پیش آنے والے اس واقعے میں عینی شاہدین نے پولیس کو بتایا تھا کہ انہوں نے شہر کے انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیدیم کے باہر سے کئی ایسے افراد کو اغوا ہوتے ہوئے دیکھا تھا، جنہیں زبردستی ایک ایسی وین میں سوار کرایا جا رہا تھا، جس پر کوئی نمبر پلیٹ نہیں لگی ہوئی تھی۔ اس اغوا کے تین روز بعد ان افراد کی لاشیں ایک مقامی دریا میں تیرتی ہوئی ملی تھیں۔
ڈھاکا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس مقدمے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سماعت کے دوران عدالت کو پتہ چلا تھا کہ کس طرح ملک میں حکمران جماعت عوامی لیگ کے ایک سیاستدان نے ملک کی ایک ایلیٹ سکیورٹی فورس کے اہلکاروں کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو پہلے اغوا اور پھر قتل کروایا تھا۔
جن 26 ملزمان کو عدالت نے موت کی سزا سنائی، ان میں ملک کی ریپڈ ایکشن بٹالین یا RAB نامی اسپیشل فورس کا ایک کمانڈر طارق سعید بھی شامل ہے، جو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی کابینہ کے رکن ایک وزیر کا داماد بھی ہے۔
اس مقدمے کی کارروائی کے دوران ریاستی دفتر استغاثہ نے عدالت کے سامنے یہ ثابت کر دیا تھا کہ کس طرح نارائن گنج کے ایک سیاسی کونسلر نور حسین نے، جو اس وقت وزیر اعظم شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ کا ایک سیاستدان تھا، ریپڈ ایکشن بٹالین کےکئی افسران کو پیسے دے کر اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ نور حسین کے ایک بڑے سیاسی حریف نذرالاسلام اور اس کے چار قریبی ساتھیوں کو اغوا کر کے قتل کر دیں۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان افراد کے اسٹیڈیم کے باہر سے اغوا کے واقعے کو جس مقامی وکیل نے اتفاقاﹰ ایک موبائل فون پر ویڈیو فوٹیج کی صورت میں ریکارڈ کر لیا تھا، اسے بھی بعد ازاں اس کے ڈرائیور سمیت اغوا کر لیا گیا تھا۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق ان تمام سات افراد کو بعد ازاں قتل کر دیا گیا تھا اور پھر تیز دھار آلوں سے ان کے پیٹ کاٹ کر ان کی لاشیں نارائن گنج کے باہر دریائے شیتالکشیا میں پھینک دی گئی تھیں۔
اس واقعے کا مرکزی ملزم نور حسین، جس نے اس قتل کا حکم دیا تھا، اس جرم کے ارتکاب کے بعد فرار ہو کر ہمسایہ ملک بھارت میں روپوش ہو گیا تھا۔ بعد ازاں اسے کولکتہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا اور بھارتی حکام نے اسے ملک بدر کر کے بنگلہ دیش کے حوالے کر دیا تھا۔ آج پیر کے روز فیصلہ سنائے جانے کے وقت نور حسین بھی ذاتی طور پر عدالت میں موجود تھا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ نارائن گنج کی عدالت میں آج فیصلہ سنائے جانے کے وقت عدالت کے باہر امن عامہ کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے اور وہاں کسی بھی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے سینکڑوں پولیس اہلکار تعینات تھے۔
ڈھاکا سے ملنے والی دیگر رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ملکی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو سزائیں سنائے جانے کا کوئی واقعہ بہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے۔ ان سکیورٹی اہلکاروں کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اکثر ماورائے عدالت انسانی ہلاکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور ملک میں پائے جانے والے بدعنوانی، تشدد اور جرائم کے ماحول میں بالعموم بڑی آسانی سے سز اؤں سے بچ بھی جاتے ہیں۔