پولیس رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ اعتکاف کے دوران پیش آیا، جہاں ایک 13 سالہ بچہ 28 سالہ شخص کی ہاتھوں جنسی زیادتی کا نشانہ بن گیا۔ بچہ بہادری سے آگے آیا اور حکام کو اپنا تکلیف دہ تجربہ سنایا۔ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ مجرم نے تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہبی ماحول میں اس فعل کا ارتکاب کیا۔
متاثرہ لڑکے کے اہل خانہ نے بجا طور پر شکایت درج کرائی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ مقامی اور غیر سرکاری تنظیم ساحل کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، 2023ء میں پاکستان بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کل 4,213 واقعات درج ہوئے۔ اس کے علاوہ کتنی شکایات شرمندگی کی وجہ سے درج نہیں ہو سکیں ہوں گی اور مجرمانہ فعل کے بعد بھی مجرم کھلے عام سینہ تانے گھوم رہے ہوں گے۔
بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتیاں پاکستان کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ قصور کے واقعہ کے بعد جہاں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں ہوئی بلکہ ویڈیوز بھی بنائی گئیں، ریاست کے لیے یہ بہت بڑا سبق تھا، لیکن شاید ریاست اب بھی یہی سمجھتی ہے کہ کم عمری میں اعتکاف میں بیٹھنا ہی شاید اس بچے کا جرم تھا یا اس چھوٹے لڑکے کا لباس اکسانے والا تھا۔
2019ء میں وفاقی پارلیمان سے کم عمری کی شادی کے خلاف بِل یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ یہ ہماری روایتوں کے برعکس ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہماری ریاست بچوں کے لیے کتنی حساسیت رکھتی ہے۔ اِس بِل کی مخالفت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہماری نظر میں بچوں کا جنسی استحصال کوئی جرم نہیں اور اسے اپنی روایت قرار دے کر ہم ہر بار یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارا ضمیر اس پر مطمئن ہے۔
اس کے علاوہ جب کبھی جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو سزاؤں کی ایک فہرست تیار ہو جاتی اور ایک غیر ضروری بحث چھڑ جاتی ہے۔ ملزم کو کس قسم کی سزا ہونی چاہیے، کتنی لمبی ہونی چاہیے، کہاں ہونی چاہیے وغیرہ۔ اگر ہم اس حوالے سے واقعی سنجیدہ ہیں تو بحث بھی سنجیدہ ہونی چاہیے۔ اس قسم کی منصوبہ بندی کے لیے حقائق، اعدادوشمار اور رویوں کو دیکھ کر کوئی فیصلہ سازی ہونی چاہیے۔
دوسری طرف لوگوں کی ایک کثیر تعداد اسے ایک مغربی مسئلہ قرار دیتی ہے اور وہ سرے سے یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسے روایتی معاشرتی ڈھانچے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، جس میں جنس اور جنسیت کے بارے میں بالکل بھی بات نہیں کی جاتی اور اگر کوئی کرے بھی تو اس فحاشی قرار دیا جاتا ہے۔ والدین بچوں سے جنسیت کے ساتھ ساتھ ان میں ہونے والی جسمانی اور جذباتی تبدیلیوں کے بارے میں بات نہیں کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ہر طرح کی جنسی زیادتی جس کا کسی بچے کو سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی اطلاع کسی کو نہیں دی جاتی۔ جب اطلاع ہی نہیں دی جاتی تو یقیناً ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس ملک میں کسی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہی نہیں۔
ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت اور تحفظ کو ترجیح دینی چاہیے۔ انہیں نقصان سے بچانے کے لیے پہلے بھرپور اقدامات کرنے چاہییں اور پھر ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ ذمہ دار شہریوں کے طور پر، ہمیں جوابدہی کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے اور نابالغ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھرپور حکومتی مدد کی وکالت بھی کرنی چاہیے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔