بچوں کی ہجرت میں پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے آگے
8 ستمبر 2016بچوں کے لیے کام کرنے والی اس عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ شرح جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں پائی جانے والی عدم تحفظ کی فضا اور عسکریت پسندی نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا حالانکہ پاکستان خود بھی سولہ لاکھ کے قریب مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک میں ویسے تو عدم تحفظ کی فضا نے تمام افراد کو کسی نہ کسی طرح متاثر کیا ہے لیکن نوّے کی دہائی سے لے کر اب تک اقلیتیں اس فضا سے کچھ زیادہ خوف زدہ نظر آئی ہیں۔ گزشتہ پچیس برسوں میں اہل تشیع، ہزارہ قوم کے افراد، احمدی اور حالیہ برسوں میں اسماعیلی اور بوہری بھی عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہے۔ اس صورتِ حال نے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو ہجرت پر مجبور کیا۔
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے بوستان کشتمند نے اپنی برادری کے افراد کی ہجرت کے حوالے سے بتایا، ’’ویسے تو ہماری کمیونٹی کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن گزشتہ سولہ برسوں میں ہمارے لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ ہمارے اجتماعات پر حملے ہوئے۔ یہاں تک کہ ہماری خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا اور اُن پر بھی سردار بہادر یونیورسٹی اور آئی ٹی یونیورسٹی میں حملے ہوئے۔ ان واقعات نے ہمارے لوگوں کو بڑے پیمانے پر یورپ، امریکا اور آسٹریلیا ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ ہمارے سینکڑوں بچے سمندروں کی نذر ہوگئے جب کہ کئی بچوں کو ایران اور ترکی کے بارڈر پر جرائم پیشہ عناصر نے تاوان نہ دینے کی وجہ سے قتل کر دیا۔ ہماری پورے پاکستان میں آبادی پندرہ لاکھ ہے، جس میں سے پچیس فیصد لوگ ہجرت کر چکے ہیں۔ یاد خان اسکول علمدار روڈ کوئٹہ میں بیس سال پہلے تقریباً تیرہ سو سے پندرہ سو بچے ہوتے تھے، اب یہ تعداد صرف تین سو کے قریب ہیں۔‘‘
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری ڈاکڑ شیر شاہ سید نے ڈی ڈبلیو کو اس حوالے سے بتایا، ’’نوّے کی دہائی میں پاکستان میں شیعہ ڈاکڑز کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی، جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں شیعہ ڈاکڑز اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ یہاں سے ہجرت کر گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ پاکستان سے کیوں نہ جائیں۔ کیا ملک میں کوئی ایماندار ڈاکٹر رُک سکتا ہے۔ ذہین افراد ایک لمحے کے لیے بھی یہاں نہیں رُکنا چاہتے۔ زیادہ تر ڈاکٹرز، انجینئرز اور ایم بی اے والے پاکستان میں رُکنا پسند نہیں کرتے۔ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور معاشرہ تباہی کی طرف جا رہا ہے۔‘‘
قائد اعظم یونیورسٹی سے وابستہ ماہر علم البشریات مشتاق گاڈی نے ڈی ڈبیلو بتایا، ’’میں حیران ہوں کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ باہر گئے ہیں لیکن میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ سب شورش زدہ علاقوں سے گئے ہیں یا ان پر پاکستان میں عرصہٴ حیات تنگ تھا۔ دیکھیں، جنگ زدہ علاقوں میں لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہوتے۔ باہر جانے کے لیے اور خصوصاً یورپ اور آسڑیلیا جانے کے لیے آپ کے پاس پیسہ ہونا چاہیے۔ آپ کی ان ممالک میں کوئی جان پہچان ہونی چاہیے۔ وسطی پنجاب میں تو کوئی شورش نہیں لیکن وہاں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی سیاسی پناہ لے لیتی ہے۔ میرے خیال میں ہجرت کے لیے pull اور push دو عوامل ہوتے ہیں۔ بلوچ، احمدی، ہزارہ، اہل تشیع اور اقلیتوں کے کچھ حصے پُش والے عوامل میں آتے ہیں لیکن خوشحال ملکوں میں جانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد معاشی مہاجرین کی بھی ہوتی ہے، جو وہاں سکونت اختیار کرنے کے لیے مختلف دعوے کرتے ہیں، جو عموماً درست نہیں ہوتے۔ ایسے افراد پُل والی کیٹیگری میں آتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہجرت کر کے جانے والوں میں یہ رجحان ہوتا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو بلاتے ہیں، میرپور، جہلم اور وسطی و شمالی پنجاب کے بہت سے لوگوں نے اپنی اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو باہر ممالک میں اپنے پاس بلایا ہے اور ان میں سے کسی پر عرصہٴ حیات تنگ نہیں تھا بلکہ اُن کی یہاں سے جانے کی وجہ معاشی تھی۔‘‘