1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت نے مذہبی آزادی کے متعلق امریکی الزامات مسترد کردیے

جاوید اختر، نئی دہلی
29 اپریل 2020

دنیا بھر میں مذہبی آزادی پر نگاہ رکھنے والے امریکی ادارے کی رپورٹ میں بھارت کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے مدنظر’خاص تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں شامل کیے جانے کو دہلی نے یکسر مسترد کردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3bYEF
Indien | Neu-Dehli | Protest von Muslimischen Frauen
تصویر: DW/M. Javed

گجرات کے2002  کے مسلم کش فسادات کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارت کو بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل کردیا ہے جہاں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2019 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے ”اقلیتوں کے خلاف تشدد کی کھلی چھوٹ اور ان کے مذہبی مقامات کو بلا روک ٹوک نشانہ بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز اور تشدد کو بھڑکانے والے بیانات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے بلکہ اس کے رہنما بھی اس میں ملوث ہیں۔“

رپورٹ میں اس سلسلے میں وزیر داخلہ اور بی جے پی کے سابق قومی صدر امیت شاہ کے اس متنازع بیان کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے مسلم مہاجرین کو ’دیمک‘ قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جنہوں نے متنازعہ شہریت قانون کے مخالفین سے سخت بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انہیں بریانی نہیں بلکہ گولی دی جائے گی۔‘

رپورٹ میں دہلی میں ہوئے فسادات کے حوالے سے کہا گیا ہے” فروری 2020 میں دہلی میں تین دنوں تک تشدد بھڑکتا رہا۔ اس میں ہجوم نے مسلم علاقوں پر حملہ کیا اورایسی رپورٹیں تھیں کہ وفاقی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی دہلی پولیس حملے کو روکنے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ خود بھی تشدد میں شامل رہی۔“

بھارت نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے اس حوالے سے کہا”ہم بھارت کے سلسلے میں یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ بھارت کے خلاف اس کمیشن کے جانبدارانہ ریمارکس نئے نہیں ہیں لیکن اس رپورٹ میں یہ غلط بیانی کی سطح نئی انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ حالانکہ اپنی کوششوں میں یہ اپنے کمشنر تک کی تائید حاصل نہیں کرسکی۔ ہم اسے ارگنائزیشن آف پرٹیکولر کنسرن (خاص تشویش کا ادارہ) قرار دیتے ہیں اور اسی لحاظ سے اس کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔“

یہاں ذرائع کا کہنا ہے کہ یو ایس سی آئی آر ایف کی نو رکنی ٹیم کے دو افراد نے بھارت کا نام فہرست میں شامل کرنے سے اختلاف کیا تھا جبکہ کمیشن کے چیئرمین نے بھی اس کے فیصلے پر سوالات اٹھائے تھے۔


رپورٹ میں کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے مودی حکومت کے اقدام کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن بھارت کا دیرینہ موقف ہے کہ کشمیر اور شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اس کے داخلی معاملات ہیں۔

بھارت بالعموم یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹوں کو تسلیم نہیں کرتا اور ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے اس کے اراکین کو بھارت آنے کے لیے ویزے نہیں جاری کیے گئے ہیں۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے اس سے قبل گجرات فسادات کے بعد بھارت کو’خاص تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ چودہ ایسے دیگر ممالک میں چین، پاکستان، برما، شام، روس، نائجیریا، ایران، شمالی کوریا، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان، ویتنام اور اریٹیریا بھی اس برس کی فہرست میں شامل ہیں۔

آل انڈیا مجلس اتحادا لمسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے اس رپورٹ کے حوالے سے مودی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں کہا”یو ایس سی آئی آر ایف نے مذہبی آزادی کی فہرست میں پاکستان، برما اور شام کے ساتھ بھارت کو شامل کردیا۔ اس سے واضح ہوگیا ہے کہ وزیر اعظم مودی کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے گلے ملنا کام نہیں آیا۔ بہتر ہے اگلی مرتبہ آپ کچھ ڈپلومیسی دکھائیں۔“


خیال رہے کہ گزشتہ مارچ میں وزیر اعظم مودی نے امریکی صدر ٹرمپ کے اعزاز میں اپنی آبائی ریاست گجرات کے احمد آباد شہر میں ’نمستے ٹرمپ‘ کے نام سے ایک بڑا جلسہ منعقد کیا تھا۔ جس میں تقریباً ایک لاکھ افراد شریک ہوئے تھے۔ کورونا وائرس کی بھارت میں دستک دینے کے باوجود اس پروگرام کے انعقاد اور اس پر ہونے والے تقریباً ایک سو کروڑ روپے کے اخراجات پر مختلف حلقوں نے شدید نکتہ چینی کی تھی۔

ادھر کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر ششی تھرور نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ”بھارت کو یو ایس سی آئی آر ایف کی طرف سے خاص تشویش والے ملکوں کی فہرست میں شامل کیے جانے سے کوئی بھی بھارتی خوش نہیں ہوسکتا۔ لیکن انڈین۔امریکن ہندو، مسلم اور مسیحی این آر آئیز گروپوں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے اور مودی حکومت سے اپیل کی ہے کہ دھمکی، تشدد اور سماجی بائیکاٹ کی حرکتوں پر روک لگائیں۔ “

دریں اثنا ایک اہم پیش رفت میں وائٹ ہاوس نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ٹوئٹر کو ’ان فالو‘ کردیا۔ کورونا وائرس کے علاج کے سلسلے میں بھارت کی طرف سے ہائیڈروکسی کلوروکوئن دوا ملنے کے بعد صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کو ایک عظیم رہنما قرا ر دینے کے بعد وائٹ ہاوس کے ٹوئٹر ہینڈل نے وزیر اعظم مودی، وزیر اعظم کے دفتر اور بھارتی صدر کے دفتر وغیرہ کو فالو کرنا شروع کردیا تھا لیکن وائٹ ہاوس کی طر ف سے آج ان سب کو ’ان فالو‘ کردیے جانے پر بھارت میں حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔

نئی دہلی: مغل بادشاہ اورنگ زیب سے منسوب لین، نام کے خلاف مہم

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں