بے نظیر قتل: کیا حکومت دوبارہ تحقیقات کے لئے سنجیدہ ہے؟
17 اپریل 2010اقوام متحدہ کے خصوصی کمیشن نے حال ہی میں پاکستانی حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی ہے، جس میں بے نظیر کے قتل کی دوبارہ تحقیقات کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ’یو این‘ رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ نئے سرے سے کی جانے والی تفتیش میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں سے وابستہ مشتبہ افراد سے بھی پوچھ گچھ کی جائے۔
دسمبر 2007 ء میں بے نظیر کے قتل ہوجانے کے بعد سے اس سلسلے سے جڑے تجسس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد پہلے سے مبینہ قاتلوں کے متعلق جاری قیاس آرائیوں کا سلسلہ مزید شدت کے ساتھ طول اختیار کرتا جارہا ہے۔
پاکستان میں ادارہ برائے سٹریٹیجک امور سے وابستہ سمبل خان کے بقول حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں ایسے افراد کے متعلق نئے سرے سے کھوج لگانے کی کوئی جستجو دیکھنے میں نہیں آرہی، جو ابھی پاکستان ہی میں موجود ہیں۔
عسکری ودفاعی امور کے ماہر حسن عسکری کے بقول واضح طور پر بے نظیر کے قتل کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر عائد کی جاچکی ہے۔ ان کے مطابق اقوام متحدہ نے بالخصوص ان لوگوں پر ذمہ داری عائد کردی ہے، جو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی سلامتی کو یقینی بنانے کے ذمہ دار تھے۔ حسن عسکری کے مطابق اب موجودہ حکومت کا امتحان ہے کہ وہ نئے سرے سے تحقیقات کرے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ یہ رپورٹ وفاقی کابینہ میں پیش کی جائے گی جہاں اس ضمن میں اہم حکومتی اقدامات کی منظوری متوقع ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ قومی اسمبلی نے اپنے قیام کے آغاز ہی میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کے لئے متفقہ طور پر قرار داد کی منظوری دی تھی۔
پاکستان میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے کے بعد قتل کی گئی تھیں۔ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آنے کا ارادہ کرنے کے بعد بے نظیر نے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں مبینہ طور پر بے نظیر نے بعض افراد کے نام بیان کرکے اپنی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
دوسری جانب سابق صدر پرویز مشرف کے کیمپ نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مشرف کے ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی نے اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کمیشن کے سربراہ چلی سے تعلق رکھنے والے ایک سفارت کار ہیں، ’شرلاک ہولمز‘ طرز کے جاسوس نہیں۔
قتل کی ذمہ داری اوائل میں طالبان رہنما بیت اللہ محسود پر عائد کی جاتی رہی، جو ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے جاچکے ہیں۔ حالیہ رپورٹ میں اقوام متحدہ نے واضح کردیا ہے کہ جائے وقوعہ پر موجود 15 سالہ مبینہ خودکش حملہ آور یقینی طور پر از خود یہ کام نہیں کرسکتا تھا اور یقیناً اس کے پس پشت دیگر عناصر کار فرما تھے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: گوہر نذیر گیلانی