تبت کی جلاوطن حکومت کے سربراہ کا ڈوئچے ویلے سے انٹرویو
23 فروری 2011تبت کی جلاوطن حکومت کے عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے سربراہ سمدھونگ رنپوچے نے ابھی حال ہی میں جرمنی کا جو دورہ کیا، اس دوران ڈوئچے ویلے کی چینی سروس کی خاتون سربراہ ایڈریئن وولٹرزڈورف نے ان کے ساتھ ایک انٹرویو کیا۔
اس انٹرویو میں کالون تریپا نے کہا کہ تبتی باشندوں کے دنیاوی اور روحانی رہنما دلائی لامہ سیاست سے اپنی کنارہ کشی کا اعلان کر چکے ہیں اور انہیں ذاتی طور پر امید ہے کہ دلائی لامہ کے عملی سیاست سے دستبردار ہونے کے بعد بھی تبتی باشندوں کی جلاوطن حکومت میں سیاسی تسلسل دیکھنے میں آئے گا۔
سمدھونگ رنپوچے کے ڈوئچے ویلے کے ساتھ انٹرویو کے اقتباسات:
ڈوئچے ویلے: تبت کی جلاوطن حکومت کے انتخابات بیس مارچ کو ہو رہے ہیں اور دلائی لامہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ اس کا تبت کی جلاوطن حکومت کے لیے انتخابی عمل پر کیا اثر پڑے گا اور وہ گزشتہ انتخابات سے کتنے مختلف ہوں گے؟
سمدھونگ رنپوچے: یہ انتخابات تبتی عوام کے لیے بہت اہم ہیں۔ سیاسی قیادت کے انتخاب یا انتظامیہ کے سربراہ کے عوام کے ذریعے براہ راست انتخاب کا عمل سن 2001 میں شروع کیا گیا تھا۔ پہلے الیکشن میں میرا انتخاب عمل میں آیا تھا۔ پھر سن 2006 میں بھی مجھے ہی منتخب کیا گیا تھا۔ اب یہ تیسرا موقع ہو گاکہ تبتی باشندے اپنے سیاسی رہنما کا انتخاب اپنے ووٹ کے ذریعے کریں گے۔ دنیا بھر میں آباد تبتی باشندوں نے اب تک اس انتخابی عمل میں بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا ہے۔ دلائی لامہ کے سیاست سے ریٹائرمنٹ کے حالیہ اعلان کے بعد کالون تریپا کا تبتی عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کردار نہ صرف مزید اہم ہو جائے گا بلکہ اس عہدے پر منتخب ہونے والے رہنما کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ جائیں گی۔ اس لیے تبتی عوام اس الیکشن کے حوالے سے بڑے پرجوش ہیں اور وہ اس انتخابی عمل میں بڑی سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں۔
ڈوئچے ویلے: دلائی لامہ سیاست سے اس لیے ریٹائر ہو رہے ہیں کہ تبتی باشندوں کو جمہوری حوالے سے نشو و نما کا زیادہ سے زیادہ موقع مل سکے۔ تبت اور تبتی باشندوں پر زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ کی چینی کوششوں کے تناظر میں کیا دلائی لامہ نے اپنے اس فیصلے سے بہت زیادہ خطرات مول نہیں لے لیے؟
سمدھونگ رنپوچے: جی ہاں، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دلائی لامہ نے اپنے اس فیصلے سے بہت بڑا خطرہ مول لے لیا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ انہیں کبھی نہ کبھی تو کرنا ہی تھا۔ اب تبتی عوام کو یہ سیکھنا ہی ہو گا کہ وہ خود کو سیاسی طور پر بہتر انداز میں منظم کیسے رکھ سکتے ہیں۔ دلائی لامہ اگر اب یہ فیصلہ نہ کرتے تو پھر شاید بہت دیر ہو جاتی۔
ڈوئچے ویلے: بیک وقت ایک بدھ راہب اور ایک سیاستدان کے طور پر آپ دلائی لامہ کے اس فیصلے کو کیسے دیکھتے ہیں؟
سمدھونگ رنپوچے: میں دلائی لامہ کے محسوسات اور ان کے فیصلے کی بڑی قدر کرتا ہوں۔ ہم جلاوطن تبتی باشندوں کے پاس اپنی کوئی سر زمین ، اپنا کوئی وطن نہیں ہے۔ اس لیے ہماری سرگرمیاں زیادہ سے زیادہ تبتی عوام کی فلاح و بہبود تک ہی محدود رہ سکتی ہیں۔
ڈوئچے ویلے: تبت کے مسئلے پر کسی پیش رفت کے لیے دلائی لامہ اور چینی حکومت کے نمائندوں کے مابین جنوری 2010ء کے بعد سے اب تک کوئی مکالمت عمل میں نہیں آئی۔ آپ اس حوالے سے چینی حکومت کی پالیسی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
سمدھونگ رنپوچے: سچ یہ ہے کہ مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ بیجنگ کی طرف سے ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مکالمت کے تسلسل میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جب کبھی بھی کوئی چینی حکومت سے یہ پوچھتا ہے کہ تبت کے مسئلے پر بات چیت کا کیا بنا، بیجنگ حکومت یہ کہتی ہے کہ ہم رابطے میں ہیں اور یہ رابطے آئندہ بھی جاری رہیں گے۔ لیکن اس وقت میرا خیال یہ ہے کہ چینی رہنما یہ انتظار کر رہے ہیں کہ پہلے بیس مارچ کے الیکشن ہو لینے دیں اور یہ دیکھیں کہ نیا کالون تریپا کون بنتا ہے۔ میری رائے میں اس بارے میں کوئی واضح صورت حال شاید مارچ میں الیکشن کے بعد سامنے آ سکے۔
انٹرویو: ایڈریئن وولٹرزڈورف
ترجمہ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک