ترکمانستان گیس پراجیکٹ میں پیش رفت
6 اگست 2015آج جمعرات چھ اگست کو اشک آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کی مشترکہ پائپ لائن ’’ٹیپی‘‘ کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے ارکان نے شرکت کی اور اس بات کی منظوری دی کہ اس منصوبے کو ترکمانستان کی سرکاری گیس کمپنی کے حوالے کیا جائے گا۔ اجلاس میں افغانستان، پاکستان اور بھارت کے وزراء بھی شریک تھے۔
مقامی خبر رساں اداروں نے سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ’’ترکمان گیس کے پاس ٹیپی پائپ لائن کی نگرانی، اس کی مالی معاونت اور ملکیت کی صلاحیت موجود ہے۔‘‘
واضح رہے کہ افغانستان اور پاکستان میں توانائی کی شدید قلت ہے اور بھارت میں صنعتی ترقی اور درمیانے طبقے کی آبادی میں غیر معمولی اضافے کے باعث اس کو بھی توانائی کے زیادہ سے زیادہ ذرائع درکار ہیں۔
جمعرات کے روز کیے جانے والے فیصلے کے بارے میں ترکمان گیس کے ایک عہدے دار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ غیر ملکی کمپنیاں بھی اٹھارہ سو کلومیٹر طویل اس پائپ لائن کے منصوبے میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ منصوبے پر دس بلین امریکی ڈالرز کی لاگت آئے گی۔
اس عہدے دار کا کہنا تھا، ’’ترکمان گیس اس منصوبے کی قیادت اور نگرانی کرے گا تاہم اس میں غیر ملکی کمپنیاں شامل ہو سکتی ہیں۔ ہم بہت سی کمپنیوں کے پروپوزلز کا مطالعہ کر رہے ہیں۔‘‘
ماضی میں شیوران، ایگزون موبل اور ٹوٹال جیسی بڑی کمپنیاں ٹیپی کنسورشیم کی قیادت کی امیدوار رہی تھیں۔
امریکا ٹیپی منصوبے کی حمایت کرتا آ رہا ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے قبل امریکا افغانستان، پاکستان اور بھارت پر روز دیتا رہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ ٹیپی کی طرز کا معاہدے نہ کریں۔ اسی بنا پر ایران، پاکستان اور انڈیا گیس پائپ لائن پراجیکٹ، آئی پی، تعطل کا شکار رہا۔ تاہم اب امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری سے اس بات کی امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ منصوبہ بھی آگے بڑھ سکے گا۔
پاکستان نے متعدد مرتبہ اس مؤقف کا اظہار کیا ہے کہ کیوں کہ اس کی توانائی کی قلت انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکی ہے، لہٰذا اسے جہاں سے توانائی ملے گی وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان نے حال ہی میں چین کے ساتھ بھی توانائی کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔