’جرائم میں ملوث پناہ گزینوں کو فی الفور ملک بدر کیا جائے‘
30 دسمبر 2015خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کی جانب سے یہ مطالبہ جماعت کے اراکین پارلیمان کی جانب سے تیار کیے گئے ایک ڈرافٹ میں کیا گیا ہے۔ روئٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں موصول ہونے والے ڈرافٹ کے مندرجات جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ان کی جماعت، سی ڈی یو کی مہاجرین کے بارے میں اپنائی گئی پالیسیوں سے متصادم ہے۔
یہ ڈرافٹ اگلے ماہ کے آغاز میں تارکین وطن کے بارے میں جرمنی کی پالیسی پر فیصلہ سازی کے لیے ہونے والے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
سی ایس یو کے مطالبات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جرائم میں ملوث پناہ گزینوں کو فی الفور ملک بدر کیا جائے۔ پارٹی کی رائے میں پناہ کی درخواستوں پر فیصلے انفرادی طور پر کیے جائیں اور کسی مخصوص قومیت یا گروہ سے تعلق کی بنیاد پر پناہ نہ دی جائے۔
علاوہ ازیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شورش زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن پر یہ واضح کیا جائے کہ وہ صرف اس وقت تک جرمنی میں ٹھہر سکتے ہیں، جب تک ان کے آبائی وطن میں حالات خراب ہیں۔ صورت حال بہتر ہونے کے بعد انہیں فوراً واپس جانا ہو گا۔
سی ایس یو کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ آئندہ برس سے پاسپورٹ کے بغیر جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کو ملکی حدود میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ علاوہ ازیں سیاسی پناہ کے طریقہٴ کار کو سخت کرنے، ملک بدریوں میں اضافہ کرنے اور جرمنی میں تارکین وطن کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرنے کے مطالبات بھی مذکورہ ڈرافٹ میں شامل ہیں۔
سی ایس یو اس سے پہلے بھی بارہا تارکین وطن کی بالائی حد مقرر کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے تاہم انگیلا میرکل نے ایسے مطالبات کو ہمیشہ رد کیا ہے۔
سی ایس یو کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات حکومتی اتحاد میں اختلافات پیدا ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ مطالبات پر رد عمل دیتے ہوئے حکومتی اتحاد میں شامل تیسری سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے سی ایس یو پر اختلافات کو بڑھانے کا الزام لگایا ہے۔
سی ایس یو آسٹریا سے متصل جرمن ریاست باویریا میں برسر اقتدار ہے۔ زیادہ تر تارکین وطن اسی صوبے کے راستے جرمنی میں داخل ہوتے ہیں۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے بارے میں جرمن پالیسی میں بنیادی بیغام یہ ہونا چاہیے کہ کوئی بھی شخص باقاعدہ اور اصل شناختی دستاویزات کے بغیر جرمنی میں نہیں داخل ہو سکتا۔
اس قدامت پرست جماعت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پناہ کے متلاشی ایسے افراد، جن کے پاس شناختی دستاویزات نہیں ہیں، وہ جرمنی میں داخل ہونے سے قبل جرمنی کے پڑوسی ممالک میں رک کر پہلے اپنی قانونی دستاویزات کا انتظام کر سکتے ہیں۔
جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ فی الوقت سی ایس یو کی جانب سے سامنے آنے والے مطالبات کے بعد حکومتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا رہی۔
دوسری جانب وفاقی پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی تو واقع ہوئی ہے تاہم اب بھی ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن جرمنی پہنچ رہے ہیں۔
بدھ کے روز 3714 تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے جب کہ پیر کے روز جرمنی آنے والوں کی تعداد 3910 رہی تھی۔ رواں برس ایک روز جرمنی پہنچے والے مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد دس ہزار رہی تھی۔