جرمنی سے مہاجرین کی ملک بدری: ’صرف رقم کا لالچ کافی نہیں‘
29 جولائی 2017گیرالڈ کناؤس وفاقی جرمن حکومت کے مشیر ہیں اور انہوں نے ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ کلاؤس ’یورپی استحکام‘ کے پروگرام کے سربراہ بھی ہیں۔
جرمنی میں کسے پناہ ملے گی اور کسے جانا ہو گا؟
2017ء جرمنی سے ملک بدریوں کا سال ہو گا، جرمن وزیر
ہفتہ انتیس جولائی کے روز جرمنی کے ایک عوامی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یورپ سے پناہ گزینوں کے واپسی کے لیے ان کے آبائی وطنوں کے ساتھ معاہدے کرنے کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے تجویز پیش کی کہ تارکین وطن کے آبائی ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ایسے معاہدے کیے جائیں جن کے تحت ان ممالک سے یورپ کی جانب قانونی طریقے سے ہجرت کا کوٹہ مقرر کیا جائے اور اس کے بدلے میں یہ ممالک یورپ میں پناہ کے مسترد درخواست گزار اپنے شہریوں کی وطن واپسی کو یقینی بنائیں۔
سیاسی امور کے ماہر گیرالڈ کناؤس کا کہنا تھا کہ یورپی یونین ان ممالک کو صرف پیسوں کی پیش کش کر کے پناہ گزینوں کی واپس قبول کرنے کا قائل نہیں کر سکتی۔
گزشتہ برس ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے میں بھی کناؤس کا کردار کلیدی تھا۔ اس معاہدے کے بعد ترکی کے ذریعے یورپ پہنچنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
ترک معاہدے میں بھی یورپی یونین ترکی میں مقیم مہاجرین کی مدد کے لیے نہ صرف مالی تعاون فراہم کر رہی ہے بلکہ ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے ہر شامی مہاجر کے بدلے ترکی میں مقیم ایک شامی مہاجر کو قانونی طور پر کسی نہ کسی یورپی ملک میں آباد کرنا بھی اس معاہدے کی ایک اہم شق ہے۔