جرمنی: کسے پناہ ملے گی اور کسے جانا ہو گا؟
11 جون 2017جرمنی سے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری گزشتہ کئی دنوں سے جرمن میڈیا میں زیر بحث ہے۔ افغان حکومت کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد اس برس مئی کے آخر تک ایک سو چھ افغان مہاجرین کو جرمنی سے افغانستان واپس بھیجا گیا۔
جرمنی میں نئی زندگی (1): آمد کے بعد کیا ہوتا ہے؟
جرمنی: مہاجرین کی رہائش گاہ میں آتش زدگی، 37 زخمی
لیکن گزشتہ دو برسوں کے دوران جرمنی سے جبری ملک بدری کا سب سے زیادہ سامنا البانیا اور کوسووو سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو کرنا پڑا۔
ملک بدری یا رضاکارانہ وطن واپسی ایک مشکل موضوع ہے، جرمنی میں موجود تارکین وطن اس پر بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ لیکن بہتر معاش کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے اکثر تارکین وطن پناہ کے فیصلوں پر طویل انتظار، جرمن زبان سے عدم واقفیت اور روزگار کے مواقع نہ ملنے کے بعد مایوس ہو کر وطن لوٹنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والا محمد اجمیر نامی تارک وطن بھی ایسے ہی حالات سے مایوس ہو کر رضاکارانہ طور پر اپنے وطن لوٹ جانا چاہتا ہے۔ جرمنی پہنچنے تک اس کے آٹھ ہزار یورو خرچ ہوئے تھے۔ اجمیر کا کہنا ہے، ’’میرا خیال تھا کہ مجھے یہاں بہتر روزگار کے حصول کا موقع ملے گا۔‘‘ لیکن اسے جرمنی میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وطن میں اپنی ماں کی طبیعت خراب ہونے کے بعد اب وہ واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
اٹلی میں مہاجرین مخالف تحریک کیسے اور کیوں زور پکڑ رہی ہے؟
رضاکارانہ واپسی
سن 2016 کے بعد سے جرمن حکومت تارکین وطن کی رضاکارانہ واپسی پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ پناہ کے مسترد درخواست گزار تارکین وطن اپنے آبائی ممالک کی جانب لوٹنے کے لیے جرمن حکومت سے مالی معاونت لے سکتے ہیں۔ رضاکارانہ واپسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سے پہلے بھی ممکن ہے۔ لیکن اگر سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دیے جانے کے باوجود پناہ گزین اپنے وطن لوٹنے کے لیے تیار نہ ہوں تو ایسی صورت میں جبری ملک بدری ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔
رضاکارانہ وطن واپسی کے لیے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے تعاون سے شروع کیا گیا REAG/GARP نامی پروگرام سب سے زیادہ مقبول ہے۔ اس پروگرام کے تحت جرمنی میں مقیم کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے تارک وطن کو سفری اخراجات کے علاوہ کچھ مالی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ابتدائی مالی معاونت کتنی دی جائے گی، اس کا انحصار بھی تارکین وطن کی قومیت پر ہوتا ہے۔ مثلاﹰ افغان شہریوں کو وطن واپسی پر ابتدائی طور پر پانچ سو یورو دیے جاتے ہیں، جب کہ مصری شہریوں کو تین سو یورو ملتے ہیں۔
سن 2015 میں پینتیس ہزار، جب کہ سن 2016 میں پینتالیس ہزار غیر ملکی اس اسکیم کے ذریعے اپنے ملکوں کی جانب رضاکارانہ طور پر لوٹ گئے تھے۔ اب تک رضاکارانہ واپسی پروگرام کے تحت بلقان کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے قریب اٹھائیس ہزار شہری واپس لوٹے۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے قریب ساڑھے تین ہزار مہاجرین نے بھی رضاکارانہ واپسی کی اس اسکیم سے استفادہ کیا۔
رضاکارانہ واپسی کا نیا پروگرام
رواں برس جنوری کے مہینے سے جرمن حکومت نے رضاکارانہ وطن واپسی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ایک نیا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ اس پروگرام کے تحت اگر تارکین وطن پناہ کی اپنی درخواستوں پر فیصلے سے پہلے رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کا فیصلہ کریں تو جرمن حکومت انہیں بارہ سو یورو تک کی ابتدائی مالی معاونت فراہم کرے گی۔
اگر تارک وطن کی پناہ کی درخواست پر ابتدائی فیصلہ سناتے ہوئے درخواست مسترد کر دی گئی ہو، اور درخواست گزار اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی بجائے رضاکارانہ واپسی کا فیصلہ کر لے تو اسے آٹھ سو یورو مالی معاونت ملے گی۔ وفاقی جرمن حکومت نے اس پروگرام کے لیے چالیس ملین یورو مختص کر رکھے ہیں۔
ڈبلن اصول کے تحت دیگر یورپی ممالک کی جانب ملک بدری
ڈبلن قانون کے تحت غیر ملکی شہری یورپی یونین کے اُسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں، جس کے راستے وہ یونین کی حدود میں داخل ہوئے تھے۔ جرمنی میں مقیم ہزاروں تارکین وطن کو اسی قانون کے تحت یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک بھیج دیا گیا تھا۔
گزشتہ برس جرمنی سے ملک بدر کر کے یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں بھیج دیے جانے والے غیر ملکیوں کی تعداد پچیس ہزار کے لگ بھگ رہی تھی۔ اس سے گزشتہ برس، یعنی سن 2015 میں بھی قریب اتنے ہی غیر ملکیوں کو ڈبلن قانون کے تحت ملک بدر کیا گیا تھا۔
پناہ کے یورپی قوانین، نیا لائحہ عمل
پاکستانی تارکین وطن کی واپسی، یورپی یونین کی مشترکہ کارروائی