جرمنی کے مشرقی صوبوں میں مہاجرین سے نفرت زیادہ کیوں؟
17 جولائی 2016جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی تارکین وطن کے سماجی انضمام سے متعلقہ امور کی نگران کمشنر آئیدین اُوزوس کا کہنا تھا کہ سابقہ مشرقی جرمنی کے لوگ مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے صوبے سیکسنی اور دیگر مشرقی صوبوں میں آباد مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد بھی کم ہے۔
جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین
دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی تقسیم کے نتیجے میں بننے والی سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کا دوبارہ اتحاد تین اکتوبر 1990ء کے روز ہوا تھا۔ اس اتحاد کے بعد مشرقی جرمن شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے ملک کے مغربی حصے کا رخ کیا تھا۔
پھر وقت کے ساتھ دونوں حصوں کے درمیان بیروزگاری کی شرح میں فرق بتدریج کم ہوتا گیا تاہم موجودہ جرمنی کے مشرق میں واقع وفاقی صوبوں میں بیروزگاری کا تناسب ابھی تک مغربی حصے کے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
اُوزوس کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے مابین دیوار ختم ہونے کے چھبیس سال بعد بھی مشرقی جرمنی کے لوگوں کو برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا۔ جب لوگوں میں خود اعتمادی پائی جاتی ہے اور وہ معاشرے میں خود کو حاصل حیثیت سے مطمئن ہوتے ہیں تو وہ خود سے کمزور لوگوں کے ساتھ مختلف طریقے سے پیش آتے ہیں۔‘‘
سماجی انضمام کی نگران کمشنر کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کو سمجھنا چاہتی ہیں کہ ’جرمن ہونے کے ناطے سیکسنی کے شہریوں اور کولون کے شہریوں میں کیا فرق ہے؟‘
اُوزوس نے مزید کہا کہ اس فرق کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جرمنی کے مشرقی علاقوں میں رہنے والے کئی ایسے نوجوان جرمن شہری، جنہوں نے اس سے پہلے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا، ان میں بھی تارکین وطن کی رہائش گاہوں پر حملے کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔