جمعے کو ہونے والا ایرانی صدارتی انتخاب، چھ امیدوار کون کون؟
26 جون 2024ایران میں چھ علماء اور چھ فقہاء پر مشتمل انتہائی بااختیار سمجھے جانے والے آئینی ادارے شوریٰ نگہبان نے صدارتی انتخابی امیدواری کے خواہش مند بہت سے افراد کی پیشہ وارانہ قابلیت اور اسلامی جمہوریہ ایران سے ان کی نظریاتی وابستگی کی جانچ پڑتال کے بعد صرف چھ شخصیات کو 28 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔
ایران کے صدارتی امیدواروں کے مابین پہلا مباحثہ
گارڈین کونسل یا شوریٰ نگہبان کہلانے والے اس ایرانی ادارے نے جن بہت سے معروف افراد کی انتخابی امیدواری کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں، ان میں سابق صدر محمود احمدی نژاد اور ملکی پارلیمان کے سابق اسپیکر علی لاریجانی بھی شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جن چھ شخصیات کو ابراہیم رئیسی کا جانشین بننے کے لیے قومی انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی، وہ تقریباً سب کے سب سخت گیر نظریات کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔
یہ امیدوار ہیں کون کون؟
محمد باقر قالیباف
ایرانی پارلیمان کے موجودہ اسپیکر 62 سالہ محمد باقر قالیباف ایک عرصے سے صدر بننے کی امید کر رہے ہیں۔ انہوں نے 2005 اور 2013 کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا لیکن ناکام رہے تھے۔ انہوں نے انتہائی قدامت پسند رئیسی کے حق میں 2017 کے صدارتی انتخابات کی دوڑ سے خود کو الگ کر لیا تھا۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی تدفین، لاکھوں سوگواروں کی شرکت
قالیباف خود کو ''اسلامی انقلاب کا سپاہی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے پاسداران انقلاب کے جنرل اور قومی پولیس کے سربراہ کے طور پر بھی کام کیا ہے۔
انہوں نے مبینہ طور پر 2003ء میں ملکی پولیس کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے ایرانی طلبا کے خلاف براہ راست گولیاں چلانے کا حکم بھی دیا تھا۔
وہ 2005 اور 2017 کے درمیانی عرصے میں ایرانی دارالحکومت تہران کے میئر بھی رہے ہیں۔
سعید جلیلی
اس وقت اٹھاون سالہ سعید جلیلی کو ایرانی حکومت کے انتہائی قدامت پسند گروپ میں ہردل عزیز شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جلیلی ملک کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی مذاکرات میں ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار بھی تھے۔
صدر رئیسی کی نماز جنازہ، لاکھوں افراد کی شرکت
سخت گیر جلیلی اب 'مجمع تشخیص مصلحت نظام‘ کے رکن ہیں، جسے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایرانی پارلیمنٹ اور گارڈین کونسل یا شوریٰ نگہبان کے مابین تنازعات کو ختم کرنے کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔
قالیباف کی طرح سعید جلیلی نے بھی 2013 میں صدارتی انتخاب لڑا تھا اور ابراہیم رئیسی کے حق میں 2017 میں اپنی امیدواری سے دستبردار ہو گئے تھے۔
امیر حسین غازی زادہ ہاشمی
پیشے کے لحاظ سے میڈیکل پریکٹیشنر ڈاکٹر امیر حسین غازی زادہ ہاشمی کو بھی سخت گیر سمجھا جاتا ہے۔
ہاشمی نے رئیسی کے نائب صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں اور اس وقت بنیاد شہید و امور ایثار گران (Foundation of Martyrs and Veteran Affairs) کے سربراہ ہیں۔ انہیں 2021 میں صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی تھی۔
انہوں نے تقریباً تین فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور سات امیدواروں میں سے چوتھے نمبر پر رہے تھے۔
مسعود پزشکیان
سابق وزیر صحت مسعود پزشکیان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ صدارتی دوڑ میں شامل اپنے حریفوں سے زیادہ اعتدال پسند ہیں۔
اس 69 سالہ پزشکیان نے 2021 میں بھی صدارتی انتخاب لڑنے کی کوشش کی تھی تاہم شوریٰ نگہبان نے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
ایران: محمد مخبرعبوری صدر مقرر
پزشکیان کو 2024 میں الیکشن لڑنے کی اجازت دینا جزوی طور پر حکومت کی اس حکمت عملی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے کہ زیادہ لبرل ووٹروں کو متحرک کر کے انتخابی عمل میں عوام کی زیادہ شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم مسعود پزشکیان کی کامیابی کے حقیقی امکانات بہت کم ہیں۔
مصطفیٰ پورمحمدی
مصطفیٰ پورمحمدی واحد عالم دین ہیں، جو اس سال صدر کے عہدے کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
64 سالہ مصطفیٰ پورمحمدی نے صدر احمدی نژاد کے دور حکومت میں 2005 سے 2008 کے درمیان وزیر داخلہ اور 2013 سے 2017 کے درمیان وزیر انصاف کے طور پر بھی خدمات انجام دی تھیں۔
1980 کی دہائی میں انہوں نے انقلابی عدالتوں میں بطور پراسیکیوٹر اور بعد میں بطور ڈپٹی انٹیلیجنس وزیر کام کیا۔ ان کا تعلق مبینہ طور پر سیاسی قیدیوں کو دی جانے والی اجتماعی پھانسیوں سے بتایا جاتا ہے۔
علی رضا زاکانی
اٹھاون سالہ زاکانی ایک اور سخت گیر رہنما اور تہران کے موجودہ میئر ہیں۔ گارڈین کونسل نے 2013 اور 2017 میں ان کی صدارتی امیدواری کو مسترد کر دیا تھا۔ 2021 میں انہیں انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن تب انہوں نے ابراہیم رئیسی کے حق میں اپنی امیدواری ترک کر دی تھی۔
کوئی خاتون امیدوار نہیں
اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کو صدر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایرانی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 287 افراد نے باضابطہ طور پر صدارتی عہدے کے لیے اپنی امیدواری کی خواہش کا اعلان کیا تھا اور ان میں سے 80 نے ممکنہ امیدواروں کے طور پر اپنی باقاعدہ رجسٹریشن کرائی تھی۔
ان 80 ممکنہ انتخابی امیدواروں میں چار خواتین بھی شامل تھیں تاہم گارڈین کونسل نے ان کے نام ممکنہ امیدواروں کی فہرست سے خارج کر دیے تھے۔
ج ا، م م/م م، ک م (شبنم فان ہائن)