جنوبی ایشیا کے حالات و واقعات، جرمن پریس کی نظر میں
19 جولائی 2010اس کے علاوہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے خونریز ہنگامے، بنگلہ دیش میں سینکڑوں باغی فوجیوں کے خلاف قتلِ عام کے الزام میں عائد کی جانے والی فردِ جرم اور نوجوان پاکستانی مصنف علی سیٹھی کے ناول ’دی وِش میکر‘ پر بھی ایک نظر ڈالی جا رہی ہے۔
اخبار فرانکفُرٹر الگمائنے کے مطابق پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے وُزرائے خارجہ شاہ محمود قریشی اور ایس ایم کرشنا کے مابین ہونے والے مذاکرات سے بالآخر وہ جمود ٹوٹا ہے، جو ممبئی حملوں کے بعد سے دونوں ملکوں کے باہمی روابط میں نظر آ رہا تھا۔ اخبار لکھتا ہے:’’یہ بات واضح ہے کہ پاکستان افغانستان کے تنازعے میں ایک ثالث کے طور پر سامنے آنے کے لئے کوشاں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اسلام آباد حکومت کی کوششوں کو زیادہ قابلِ اعتبار انداز میں پیش کرنے کا بھی یہی مقصد ہے۔ دوسری جانب بھارت میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران یہ سوچ اُبھری ہے کہ اگر افغانستان میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے کوئی امکانات ہیں بھی، تو وہ پاکستان کی جانب مسلسل مخالفانہ طرزِ عمل روا رکھنے سے ختم ہو جائیں گے۔ ایسے میں روایتی بیانات کے تبادلے کی بجائے ایک دوسرے کی جانب بڑھنے کا ایک نیا راستہ کھلنے کے امکانات ہیں۔‘‘
پاک بھارت مذاکرات ہی پر اپنے ایک جائزے میں سوئٹزرلینڈ کا اخبار ’نوئے زیوریشر سائی ٹُنگ‘ لکھتا ہے:’’بات چیت توقع سے کہیں زیادہ دیر تک جاری رہی، جسے مذاکراتی سلسلے پر طویل عرصے تک جاری رہنے والے جمود کے پیشِ نظر ایک مثبت علامت کہا جا سکتا ہے۔ تاہم بعد ازاں جاری کئے جانے والے بیانات رسمی نوعیت کے ہی رہے۔ پاکستان نے کہا کہ وہ ممبئی حملوں کے پیچھے کارفرما عناصر کے خلاف مقدمات کی کارروائی کو آگے بڑھائے گا۔ ساتھ ہی پاکستان نے یہ یقین بھی دلایا کہ و ہ اپنی سرزمین کو دہشت پسندانہ حملوں کی منصوبہ بندی کے لئے استعمال نہیں ہونے دے گا۔ دوسری طرف بھارت نے تعطل کے شکار امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لئے کوئی ٹائم ٹیبل طے کرنے سے گریز کی راہ اختیار کی۔‘‘
اِن پاک بھارت مذاکرات سے چند روز پہلے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صورتِ حال سنگین شکل اختیار کر گئی اور بالآخر حریت کانفرنس کے علٰیحدگی پسندوں نے پوری وادی میں عام ہڑتال کی اپیل کر دی۔ سوشلسٹ جریدہ ’نوئیس ڈوئچ لانڈ‘ لکھتا ہے:’’کئی ہفتوں سے احتجاجی جلوس اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ خونریز جھڑپیں شہ سُرخیوں کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران پندرہ افراد مارے گئے۔ حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا:’ہماری سول نافرمانی کی تحریک اور پُر امن جلوس تب تک جاری رہیں گے، جب تک بھارت اپنے فوجیوں اور نیم فوجی یونٹوں کو آبادی والے علاقوں سے باہر نہیں نکال لیتا۔‘ اِس جماعت کے مختلف دھڑے وادیء کشمیر کی خود مختاری، پاکستان کے ساتھ الحاق یا پھر مکمل آزادی کے لئے کوشاں ہیں۔ بھارتی وزارتِ خارجہ میں قیاس کیا جا رہا ہے کہ وادیء کشمیر کے حالات میں پاکستان میں موجود اُن عناصر کی وجہ سے شدت آئی ہے، جو یہ چاہتے تھے کہ اسلام آباد منعقدہ پاک بھارت مذاکرات میں مسئلہء کشمیر کو مرکزی موضوع کی حیثیت دی جائے۔‘‘
بنگلہ دیش میں گزشتہ سال کے اوائل میں فوجی افسران کے قتلِ عام میں ملوث 801 رینجرز اور 23 شہریوں کے خلاف فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے۔ برلن سے شائع ہونے والا اخبار ’ٹاگیز سائی ٹُنگ‘ رقم طراز ہے:’’یہ واقعہ 25 فروری سن 2009ء کی صبح دارالحکومت ڈھاکہ میں اچانک پیش آیا تھا۔ رینجرز کی نگرانی کرنے والے فوجی افسران اپنی سالانہ کانفرنس کے لئے ایک فوجی کمپلیکس میں جمع ہوئے ہی تھے کہ بھاری اسلحے سے لیس رینجرز نے ہال میں گھس کر حملہ کر دیا۔ ملک کے دوسرے حصے بھی اِس بغاوت کی لپیٹ میں آ گئے۔ بھارت نے فوری طور پر اپنی سرحدیں بند کر دیں اور سرحدوں کے ساتھ ساتھ اپنی فوجی نفری میں اضافہ کر دیا۔ تب بہت سے مبصرین کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک کوشش تھی۔ ملزمان پر دیگر الزامات کے ساتھ ساتھ قتل، سازش اور آتش زنی کے الزامات کے تحت بھی فردِ جرم عائد کی گئی ہے اور اُنہیں موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے ’نوئے زیوریشر سائی ٹُنگ‘ نے نوجوان پاکستانی مصنف علی سیٹھی کی کتاب ’دی وِش میکر‘ کو اپنے ایک جائزے کا موضوع بنایا، جس کا جرمن ترجمہ حال ہی میں ’ڈیئر مائسٹر ڈیئر وُنشے‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اخبار کے مطابق اس کتاب میں پاکستان کی ایک ایسی تصویر سامنے لائی گئی ہے، جس سے جرمنی میں زیادہ لوگ واقف نہیں ہیں۔ اخبار لکھتا ہے:’’اِس ناول کا مرکزی کردار ذکی شیرازی نامی ایک نوجوان ہے، جو اپنے آبائی شہر لاہور میں واپس آتا ہے۔ وہ 90ء کے عشرے کے حالات بیان کرتا ہے، جس میں وہ پلا بڑھا اور جو ملک کی تاریخ کا ایک اہم عشرہ تھا۔ تاہم اِس کتاب میں اصل مرکزی کردار خواتین کا ہے۔ ایک ایسی خاتون ذکی کی نڈر ماں ہے، جو اپنے شوہر کی موت کے بعد خواتین کا ایک جریدہ نکالنا شروع کرتی ہے، ایک ایسا جریدہ، جو ہر بات بے خوف ہو کر بیان کرتا ہے۔ اُس کی سہیلیاں وکیل اور این جی اوز کی کارکن ہیں، جو خواتین کے حقوق کے لئے لڑتی ہیں۔ اِس ناول میں بھی سن 1947ء میں تقسیمِ ہند سے پہلے کے حالات سے لے کر گیارہ ستمبر سن 2001ء کے دہشت پسندانہ واقعات کے اثرات تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ا گرچہ سیٹھی کے کرداروں میں ملک کے سیاسی حالات کی عکاسی بھی نظر آتی ہے لیکن اِس ناول میں پہلے نمبر پر سیاست نہیں بلکہ روزمرہ کی زندگی ہے اور یوں غیر متوقع طور پر یہ ایک ایسا ناول ہے، جو اُمید پرستی کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘
تحریر امجد علی
ادارت کشور مصطفیٰ