1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا جرمن پریس کی نظر میں

5 جولائی 2010

جنوبی ايشيا کے حالات و واقعات پر جرمن زبان کے پريس کے تبصروں اور آراء پر مشتمل اس جائزے میں اس مرتبہ کے موضوعات میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے داخلہ کی حالیہ ملاقات بھی شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/OAbU
تصویر: picture-alliance/ dpa

بھارت اور پاکستان نے پچھلے دنوں اسلام آباد ميں ہونے والی وزرائے داخلہ کی ملاقات کو ايک اچھا آغاز قرار ديا ہے۔ اس ملاقات ميں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ مرکزی موضوع تھا۔ اخبار Neues Deutschland لکھتا ہے کہ دونوں وزرائے داخلہ باہمی بد اعتمادی ميں کمی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کا مصمم عزم رکھتے ہيں۔ احتياط کے ساتھ قيام امن کے مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششيں کی جا رہی ہيں۔ حسب توقع دہشت گردی کا مقابلہ دونوں وزرائے داخلہ کی بات چيت کا مرکزی موضوع تھا۔ بھارتی وزير داخلہ پی چدمبرم نے اميد ظاہر کی کہ پاکستان ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کے ذمے دار عناصر کے خلاف زیادہ مؤثر کارروائی کرے گا۔ اُنہوں نے ان حملوں کے سلسلے ميں سب سے زيادہ مشتبہ فرد حافظ سعيد کے خلاف نئے ثبوت پيش کئے۔ پاکستانی وزير داخلہ رحمان ملک نے اس بارے میں مکمل چھان بين کا وعدہ کيا۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کا موقف سمجھتا ہے اور مل جل کر دہشت گردی کی برائی کو جنوبی ايشيا کے خطے سے مٹا ديا جائے گا.

Pakistan SAARC Gipfel
پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک اپنے بھارتی ہم منصب پی چدمبرم کے ساتھتصویر: AP

اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung تحرير کرتا ہے کہ افغانستان ميں پاکستان کا اثر بڑھ رہا ہے۔ اخبار اس دوران اسلام آباد اور کابل کے درميان تقريباً عام نوعيت اختيار کر لينے والے تعلقات کو شٹل ڈپلوميسی کا نام ديتا ہے اور مزيد لکھتا ہے:

دونوں ملکوں کے تعلقات جو پہلے کشيدہ تھے، تقريباً چھ ماہ سے بہتر ہو رہے ہيں۔ مبصرين کہتے ہیں کہ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کو يہ يقين ہوچکا ہے کہ نيٹو اتحاد طالبان کے خلاف جنگ نہيں جيت سکے گا اور افغانستان کے مستقبل کے لئے نئے ساتھيوں کو ڈھونڈنا ہو گا۔ طالبان سے متعلقہ امور پر گہری نظر رکھنے والے لبرل ماہرین، مثلاً پاکستان کے معروف صحافی احمد رشيد بھی يہی سمجھتے ہيں کہ افغانستان ميں امريکی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے اور صرف باغيوں سے مذاکرات ہی سے امن قائم ہو سکتا ہے۔ احمد رشيد نے اس جرمن اخبار کو بتایا کہ طالبان کو ایک ایسی قومی تحريک کی حيثيت سے تسليم کرنا ہوگا، جس سے بات چيت کرنا ضروری ہے۔ اسلام آباد طالبان کے ساتھ بات چيت کے سلسلے ميں بطور معاون اورثالث کليدی اہميت رکھتا ہے، جس کے بغير آج کچھ بھی نہيں کيا جا سکتا۔ ماہرين افغانستان ميں ايک تيزی سے تبديل ہوتی ہوئی سياسی صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہيں، جس کا سبب خاص طور پر پاکستان کی يہ کوشش ہے کہ افغانستان کے اندر اور باہر طاقت کے توازن کو تبديل کر ديا جائے۔

انسانی حقوق کی تنظيم ہيومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ جرمنی،برطانيہ اور فرانس دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں ايسے ممالک کی خفيہ تنظيموں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہيں، جہاں زیر حراست افراد پر تشدد کیا جاتا ہے اور ایذا رسانی ایک معمول کا ہتھیار ہے۔ ہيومن رائٹس واچ کی 58 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ کے مطابق اس طرح يہ ممالک اذيت رسانی کی عالمی ممانعت کی خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہے ہيں، جو کہ عالمی قانون ميں ايک بنيادی حيثيت رکھتی ہے اور جس کی پابندی زمانہء امن اور جنگ ميں تمام ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ اخبارSüddeutsche Zeitung تحرير کرتا ہے کہ اس بات کا پاکستان سے ربط بالکل ظاہر ہے۔ وہاں اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کے مراکز ہونے کا شبہ ہے۔ پاکستان کی خفيہ سروس آئی ايس آئی جرمن تحقيقاتی حکام کو جو اطلاعات فراہم کرتی ہے، عام طور پر اُن کو کوئی عنوان نہيں ديا جاتا اور اُن کے نيچے کسی کے دستخط بھی نہيں ہوتے۔ عموماً اُن کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے: دوستوں کی طرف سے دوستوں کے لئے۔ ہيومن رائٹس واچ نے مغربی خفيہ اداروں پر تنقيد کی ہے کہ وہ يہ پوچھے بغير معلومات وصول کر ليتے ہيں کہ وہ کس طرح حاصل کی گئی تھيں۔ اسی مناسبت سے ہيومن رائٹس واچ کی رپورٹ کا عنوان بھی ’پوچھے بغير‘ رکھا گيا ہے۔ انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظيم نے مغربی حکام کا يہ بيان نقل کيا ہے کہ تفتيشی طريقوں کے بارے ميں بہت زيادہ چھان بين سے معلومات کے حصول ميں رکاوٹ پيدا ہوتی ہے۔ تاہم تفتيش کے دوران کام ميں لائے جانے والے بے رحمانہ طريقے کسی سے پوشيدہ نہيں ہيں۔ ان کا دائرہ مار پيٹ، نيند سے محروم رکھنے، کانوں کو پھاڑ دينے والی موسيقی، ناخن اکھاڑنے، دانت توڑ دينے اور ذلت آميز جنسی سلوک سے لے کر عصمت دری تک پھيلا ہوا ہے۔

Karzai bemüht sich um Frieden
افغانستان کے صدر حامد کرزئیتصویر: AP

بنگلہ ديش میں ٹيکسٹائل کی صنعت کے مزدوروں کو ملکی حکومت کے اس وعدے پر کوئی اعتبار نہيں کہ وہ جولائی کے اواخر تک اِن مزدوروں کی اجرتيں دوگنا کر دے گی۔ پوليس کے مطابق ابھی حال ہی میں ملکی دارالحکومت ڈھاکہ ميں 15 ہزار مزدوروں نے اپنی تنخواہوں ميں فوری اضافے کے لئے مظاہرہ کيا۔ اس دوران پوليس اور مظاہرين ميں جھڑپيں بھی ہوئيں، جن ميں پوليس نے احتجاجی کارکنوں کو منتشر کرنے کے لئے پائپوں سے طاقت ور دھار والا پانی پھینکا اور جوابا مظاہرين نے پولیس پر پتھراؤ بھی کيا۔ اخبار Tageszeitung تحرير کرتا ہے:

بنگلہ ديش کی ٹيکسٹائل صنعت کے چار ہزار کارخانوں ميں اجرتيں دنيا میں سب سے کم ہيں۔ اس وقت اس شعبے کے 25 لاکھ کارکنوں کی ماہانہ تنخواہ 17سو ٹکہ يعنی تقريباً 23 ڈالر ماہانہ ہے۔ ٹريڈ يونين رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر ان اجرتوں ميں کم از کم تين گنا اضافہ نہ کیا گیا تو مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ تاہم اندازہ ہے کہ ٹريڈ يونين حکومت کی طرف سے تنخواہوں کو دوگنا کر دينے کی پيشکش پر راضی ہو جائے گی، اگر حکومت واقعی اپنے وعدے کی پابندی کرتی ہے تو۔ اب تک مقامی شرائط کار صرف اس صورت ميں بہتر ہوئی ہيں جب مغربی ملکوں کے خريداروں نے بنگلہ ديشی صنعتکاروں پر اپنے مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے پر زور ديا۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں