حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں ہلاک
1 نومبر 2013نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سینیئر طالبان کمانڈر نے اس کی تصدیق کی ہے کہ اُن کا لیڈر ایک ڈرون حملے میں ’شہید ہو گیا‘ ہے۔ حکیم اللہ محسود شمالی وزیرستان میں مسلح تحریک کو جاری رکھے ہوئے تھا۔ جمعے کے روز کیے گئے حملے میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے اور اِن میں تحریک طالبان کا لیڈر بھی شامل تھا۔ شمالی وزیرستان میں تعینات مختلف سکیورٹی اہلکاروں نے بھی طالبان لیڈر کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔
امریکا نے حکیم اللہ محسود کے سر کی قیمت پانچ ملین ڈالر رکھی ہوئی تھی۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ تحریکِ طالبان نے خان سعید سجنا کو اپنا نیا لیڈر منتخب کر لیا ہے۔ حکیم اللہ محسود کی نماز جنازہ آج ہفتے کے روز میرانشاہ یا کسی قریبی علاقے میں ادا کی جائے گی۔ گزشتہ دو تین سالوں میں متعدد بار اُس کے مارے جانے کی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں۔
جمعے کی شام ساڑھے چھ بجے کے قریب شمالی وزیرستان کے اہم کاروباری، مالی و سیاسی مرکز میران شاہ کے قریب ڈرون حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں ایک مکان کا کمپاؤنڈ اور ایک گاڑی تباہ ہوئی۔ حملے کا مقام میرانشاہ کے قریب واقع ایک بڑا گاؤں ڈانڈا درپے خیل تھا۔ کل چار میزائل داغے گئے۔
ڈانڈا دارپے خیل کا جو مکان تباہ ہوا، وہ حکیم اللہ محسود کے زیراستعمال تھا اور اسے تحریک طالبان پاکستان کا مرکز خیال کیا جاتا تھا۔ وہ اکثر مختلف اجلاسوں میں شرکت کے لیے اس مکان پر آتا رہتا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق جو گاڑی تباہ ہوئی ہے، وہ بھی طالبان لیڈر ہی کے زیراستعمال میں رہتی تھی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو مکان تباہ ہوا ہے، اس میں دو درجن کے قریب مختلف طالبان کمانڈر میٹنگ میں شریک تھے، اگر یہ درست ہے تو پھر ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ابھی یہ تصدیق نہیں ہوئی کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت موٹر گاڑی میں ہوئی یا مکان میں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ حکیم اللہ محسود کے ہمراہ دو اہم کمانڈر طارق محسود اور عبداللہ بھی مارے گئے ہیں۔ چار مختلف سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق ڈرون حملے میں طالبان لیڈر کا انتہائی قریبی محافظ اور ڈرائیور بھی مارا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکیم اللہ محسود کے بعد تحریک طالبان کو مضبوط قیادت کے فقدان کا سامنا ہو گا اور گزشتہ کچھ عرصے میں اس کے کئی اہم کمانڈر ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ تنظیم مزید کمزور ہو سکتی ہے۔ رواں برس مئی میں حکیم اللہ محسود کے نائب کی بھی ہلاکت ہوئی تھی۔
حکیم اللہ محسود کی عمر چھتیس برس کےقریب خیال کی جاتی ہے۔ وہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سن 2009 میں تحریک طالبان کے لیڈر کے طور پر ابھرا تھا۔ ابتدا میں اسے طالبان کے دوسرے اہم کمانڈروں کی مخالفت کا بھی سامنا رہا لیکن بعد میں اس نے لیڈر شپ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ طالبان کی قیادت کے لیے اس کا نام اُس کے ایک رشتہ دار قاری حسین نے تجویز کیا تھا۔ قیادت سنببھالنے سے قبل وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں گھومتا رہتا تھا لیکن پاکستانی فوج کے مختلف آپریشنز کے بعد وہ شمالی وزیرستان اور قریبی علاقوں تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔
اُدھر امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں وزارت خارجہ نے طالبان لیڈر کی ہلاکت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب حکومت پاکستان نے طالبان سے مذاکرات کے لیے جانے والے وفد کی روانگی بھی ملتوی کر دی ہے۔ تین رکنی وفد کے آج ہفتے کے روز روانہ ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔