خامنہ ای نے ایران کے جوہری معاہدے کی توثیق کر دی
21 اکتوبر 2015بدھ کے روز ایرانی سپریم لیڈر نے بالآخر ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کو آشیرباد دے دی۔ یہ معاہدہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان دو سال کے عرصے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔ ان عالمی طاقتوں میں امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، چین اور روس شامل ہیں۔
اس سے قبل خامنہ ای نے کبھی نہ مذاکرات کی عوامی سطح پر حمایت کی تھی اور نہ ہی معاہدہ طے کئے جانے کے بعد اس کی توثیق کی تھی۔ تاہم ان کی جانب سے یہ بھی نہیں کہا گیا تھا کہ وہ اس معاہدے کے خلاف ہیں۔
خیال رہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایران اور مغرب کے تعلقات میں بتدریج بہتری آنا شروع ہوئی ہے۔ ایران کا جوہری معاہدہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے ساتھ مغربی ممالک تہران پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھانا شروع کر رہے ہیں۔ بدلے میں ایران کو جوہری پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے جوہری توانائی کے ساتھ تعاون کو بڑھانا ہوگا۔
یہ بھی واضح رہے کہ ایران میں گو کہ اقتدار حسن روحانی کے پاس ہے تاہم ملک میں طاقت کا سرچشمہ سپریم لیڈر ہوتا ہے۔ اس حوالے سے خامنہ ای کا اس معاہدے کی حمایت یا مخالفت کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
قبل ازیں ایران کی پارلیمنٹ نے بھی جوہری معاہدے کی منظوری دے دی تھی۔ خامنہ ای کی جانب سے ڈیل کی توثیق صدر روحانی کو بذریعہ خط موصول ہوئی۔
توثیق کے باوجود خامنہ ای کا کہنا ہے کہ صدر روحانی کی حکومت کو معاہدے کے بعض پہلوؤں کے حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اس معاہدے میں ’کافی ابہام اور کمزوریاں‘ ہیں اور ان کی نگرانی ضروری ہے۔ خامنہ ای نے اپنا پرانا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ امریکا قابل اعتماد نہیں ہے۔
ایران کا دیرینہ مؤقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد اور توانائی کے حصول کی کوششوں کا حصہ ہے ۔ تاہم مغربی ممالک، بالخصوص امریکا یہ بات تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شریک ہونے کا خواہش مند ہے۔ ایران ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔