خودکش بم حملے میں مارے جانے والے اے آئی جی پولیس کی تدفین
24 نومبر 2017یہ بم دھماکا ایک خودکش حملہ آور نے پشاور شہر کے علاقے حیات آباد میں کیا اور اس میں نشانہ براہ راست خیبر پختونخوا پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل محمد اشرف نور کی گاڑی کو بنایا گیا۔ اس حملے میں اشرف نور اور دو دیگر پولیس اہلکاروں کے علاوہ ایک راہگیر مارا گیا۔ پولیس نے بتایا کہ اس بم حملے میں چار پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے، جو ایک مقامی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
پشاور ميں خود کش حملہ ، سينئر پوليس افسر ہلاک
خیبر ایجنسی: زعفران کے ذریعے منشیات کی پیداوار کے خلاف جنگ
اس دھماکے کے بعد پشاور پولیس کے سی سی پی او طاہر خان فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے بعد ازاں صحافیوں کو بتایا کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس نے بے شمار قربانیاں دی ہیں، جو شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے تک جاری رہیں گی اور آئندہ بھی کسی قربانی سے گریز نہیں کیا جائے گا۔
اس حملے کے بعد حیات آباد میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں صوبائی پولیس کے ایک اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حملہ آور ایک موٹر سائیکل پر سوار تھا، جو راستے میں کھڑا انتظار کر رہا تھا۔ ’’جیسے ہی اس نے پولیس کی گاڑی کو آتے دیکھا، اس وقت ایک یو ٹرن کی وجہ سے پولیس کی گاڑی کافی آہستہ ہو گئی تھی، عین اسی لمحے اس نے اپنی موٹر سائیکل کو ایک زوردار دھماکے سے اڑا دیا۔ اس حملے میں ایڈیشنل آئی جی محمد اشرف نور موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔‘‘
پولیس کے تفتیشی ماہرین کے مطابق اس خودکش بم دھماکے میں 15 سے لے کر 20 کلوگرام تک دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ اس حملے میں حملہ آور خود بھی مارا گیا اور پولیس کو اس بمبار کا سر دھماکے کی جگہ سے قریب دو سو گز دور ملا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دھماکا کتنا شدید تھا۔
تربت میں آپریشن: سولہ غیر ملکیوں سمیت اٹھارہ مغویوں کی رہائی
جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپ، پاکستانی فوج کا میجر ہلاک
کلبھوشن اور اہلیہ کی ملاقات: بھارت کو پاکستانی تجویز منظور
اس دھماکے کی جگہ پر موجود پولیس اہلکاروں میں سے ایک صدیقی نامی اہکار بھی تھے، جو گزشتہ کئی برسوں سے اے آئی جی اشرف نور کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اشرف نور ایک ہنس مکھ، ملنسار اور محنتی افسر تھے، جن کی صوبائی پولیس میں بنیادی ذمے داریاں انتظامی نوعیت کی تھیں اور وہ نہ تو انسداد دہشت گردی کے ذیلی شعبے کا حصہ تھے اور نہ ہی کسی تفتیشی ٹیم کا۔
اس دھماکے کے بعد صوبے خیبر پختونخوا کے کافی عرصے سے دہشت گردی کے موضوع پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی مسرت اللہ جان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اکتوبر کے مہینے میں دہشت گردوں کے رہنما منگل باغ اور مولوی فضل اللہ کے درمیان ایک ملاقات کے بعد پولیس اہلکاروں کو ایک وارننگ جاری کی گئی تھی، جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ عسکریت پسند کوئٹہ اور پشاور میں پولیس اہلکاروں پر خودکش حملے کر سکتے ہیں۔ مسرت اللہ جان کے مطابق اس نئے حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں ابھی تک کتنی فعال ہیں، ’’دہشت گرد چاہتے ہیں کہ عوام کا پولیس پر یہ اعتماد نہ رہے کہ وہ عام شہریوں کو شدت پسندوں سے بچا سکتی ہیں۔‘‘
پشاور شہر کے رہائشی عدنان خان کا گھر جمعے کے روز کیے گئے بم دھماکے کی جگہ سے قریب 500 میٹر دور ہے۔ عدنان خان نے بتایا، ’’اس سڑک پر یہ دوسرا خودکش دھماکا ہے حالانکہ حیات آباد میں سکیورٹی اہلکار بھی کافی ہوتے ہیں۔‘‘
افغانستان: ٹی ٹی پی کی موجودگی کا اعتراف، کیا مثبت بیان ہے؟
پاکستان ميں زيادہ ہلاکتيں آلودگی سے ہوتی ہيں يا دہشت گردی سے؟
جماعتِ احرار میں ایک نیا گروپ، کیا عسکریت پسند کمزور ہورہے ہیں؟
ایڈیشنل آئی جی پولیس محمد اشرف نور کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔ ان کی نماز جنازہ جمعے ہی کے روز پشاور کی پولیس لائنز میں ادا کی گئی، جس کے میت تدفین کے لیے روانہ کر دی گئی۔ اس موقع پر صوبائی پولیس کے سربراہ صلاح الدین خان محسود نے کہا کہ محمد اشرف نور ایک ایماندار، نڈر اور بااصول پولیس افسر تھے، جن کی خدمات فراموش نہیں کی جائیں گی۔
پشاور شہر میں حیات آباد تقریباﹰ ملکی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی سرحد پر واقع ہے۔ خیبر ایجنسی اور دیگر قبائلی علاقوں میں پاکستانی سکیورٹی دستے اب تک بہت سے مسلح آپریشن کر چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف ابھی تک جاری جنگ میں سن 2006 سے لے کر اب تک 1200 سے زائد پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔