کلبھوشن اور اہلیہ کی ملاقات: بھارت کو پاکستانی تجویز منظور
19 نومبر 2017بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے نئی دہلی میں اتوار انیس نومبر کے روز بتایا کہ پاکستان میں جاسوسی اور تخریبی کارروائیوں کے جرم میں زیر حراست بھارتی بحریہ کے سابق افسر کلبھوشن یادیو کو انسانی بنیادوں پر ان کی اہلیہ سے ملاقات کی اجازت دینے کی پاکستانی تجویز منظور کر لی گئی ہے۔
اس بھارتی اہلکار نے کہا، ’’ہم یہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ سزائے موت کا حکم پانے والے کلبھوشن یادیو کے حوالے سے انسانی بنیادوں پر پاکستانی پیشکش کے سلسلے میں ہم نے جوابی خط بھیج دیا ہے۔ یہ اس خاندان اور دونوں ملکوں کے لیے ایک حساس معاملہ ہے۔‘‘
اس بھارتی اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ بھارت اس بات سے واقف ہے کہ پاکستان نے نئی دہلی کے جوابی خط کے مضمون کو راز میں رکھا ہوا ہے اور اس بارے میں ابھی تک میڈیا کو کچھ نہیں بتایا گیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے اس وقت پر سامنے آیا، جب چند گھنٹے قبل ہی پاکستانی حکام نے اس حوالے سے بھارت سے خط موصول ہونے کا اعلان کیا تھا۔ دوسری طرف میڈیا رپورٹوں کے مطابق پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد حکومت کلبھوشن یادیو کی اہلیہ کے علاوہ ان کی والدہ کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت دینے کی بھارتی درخواست پر غور کر رہی ہے۔
بھارت نے کئی ماہ قبل پاکستان سے درخواست کی تھی کہ کلبھوشن کی والدہ کو اپنے بیٹے سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔ کلبھوشن یادیو کے اہل خانہ نے بھی اپنی طرف سے حکومت پاکستان سے اپیل کی تھی اور اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر کے توسط سے پاکستانی سیکرٹری خارجہ کو یہ درخواست اس سال 26 اپریل کو دی گئی تھی۔
پاکستان نے کلبھوشن یادیو کی بیوی کو ملاقات کی اجازت دے دی
کلبھوشن یادیو کی والدہ کو پاکستان کا ویزا دیا جائے، سشما سوراج
کلبھوشن ياديو کی ’رحم کی اپيل‘ پر کيا ہونا چاہيے؟
کلبھوشن یادیو کی والدہ نے اس سال موسم بہار میں نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کوایک عرضی دے کر اپنے بیٹے سے ملاقات کی اجازت طلب کی تھی۔ بھارت کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کے لیے بھی پاکستان سے متعدد مرتبہ درخواست کر چکا ہے تاہم یہ تمام درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔
اسی دوران پاکستان نے دس نومبر کو انسانی بنیادوں پر کلبھوشن یادیو کی اہلیہ کو ان کے شوہر سے ملاقات کی اجازت دینے کی پیشکش کر کے بھارت کو حیران کر دیا تھا کیوں کہ بھارت نے یادیو کی اہلیہ کے لیے پاکستان کو ویزے کی درخواست کبھی نہیں کی تھی۔ البتہ پاکستان کی ایک فوجی عدالت کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے دو ہفتے بعد اس سال پچیس اپریل کو بھارت نے یادیو کے والدین سدھیر اور اونتکا یادیو کے لیے ویزے کی درخواست ضرور دی تھی۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ کلبھوشن یادیو کی ان کی اہلیہ سے ملاقات کب اور کہاں ہو گی۔ نئی دہلی میں سفارتی ذرائع بھی اس حوالے سے کچھ کہنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ تاہم غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق فریقین نے ملاقات کے طریقہ کار اور جگہ کے بارے میں صلاح مشورہ شروع کر دیا ہے اور بھارت چاہتا ہے کہ یادیو کی والدہ بھی ان کی بیوی کے ساتھ ہی پاکستان جائیں۔ یہ ملاقات ممکنہ طور پر دسمبر میں ہو سکتی ہے۔
کیا آئی سی جے جاکر بھارت کشمیر کے معاملے میں خود پھنس گیا؟
کلبھوشن یادیو: ’پاکستانی قانونی ٹیم نے غلطیاں کیں‘
’کلبھوشن کو بچانے کے لیے پاکستانی عدالت سے رجوع کرنا ہی واحد راستہ‘
یہ تازہ ترین پیش رفت اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں تیرہ دسمبر کو کلبھوشن یادیو کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث آئے گا۔ پاکستان کی طرف سے اس معاملے میں اس کا قانونی جواب داخل کیے جانے کی یہ آخری تاریخ ہے۔
بھارتی دارالحکومت میں مبصرین پاکستان کی اس پیشکش کو دی ہیگ کی عدالت میں بھارتی دلائل کا توڑ نکالنے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کی دلیل ہے کہ کلبھوشن تک سفارتی رسائی کی اجازت نہ دے کر پاکستان ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کا موقف یہ ہے کہ یہ اس کی قومی سلامتی کا معاملہ ہے اور اسے کسی باہمی سفارتی معاملے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ چند مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ یادیو بھارتی بحریہ کے ملازم نہیں، تو پاکستان کا کیس ممکنہ طور پر کمزور پڑ جائے گا اور یوں اسلام آباد نئی دہلی کو یادیو تک سفارتی رسائی دینے پر مجبور ہو جائے گا۔
پاکستان کا الزام ہے کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کا ایک افسر اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ایک ایجنٹ ہے، جو پاکستان میں جاسوسی اور تخریبی کارروائیوں میں ملو ث تھا۔ اسے تین مارچ 2016 کو پاکستانی صوبہ بلوچستان سے گرفتار کیا گیاتھا۔ دوسری طرف بھارت کا دعویٰ ہے کہ یادیو کافی عرصہ قبل بحریہ کی ملازمت چھوڑ کر ایرانی علاقے چابہار چلے گئے تھے، جہاں وہ تجارت کرتے تھے۔ بھارتی دعوے کے مطابق یادیو کو ایران سے اغوا کر کے پاکستان لے جایا گیا تھا۔
کلبھوشن یادیو کو سنائی گئی سزائے موت پر فوری عمل درآمد مشکل ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو یادیو کی سزا پر عمل درآمد نہ کرنے کے لیے کہہ رکھا ہے۔ یادیو نے پاکستانی فوج کے سربراہ کو رحم کی درخواست بھی کر رکھی ہے۔
اگر یہ درخواست مسترد ہو گئی، تو یادیو ہائی کورٹ اور پھر پاکستانی سپریم کورٹ میں بھی اپیل کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے پاس صدر پاکستان سے رحم کی اپیل کی گنجائش بھی موجود ہو گی۔ اسی دوران بھارت یہ بھی کہہ چکا ہے کہ یادیو کو پھانسی دینے کے مضمرات سنگین ہوں گے۔