دلہنیں برائے فروخت: جبری شادیاں اور جسم فروشی
25 جون 2014Kiab کا تعلق ویتنام میں ہمونگ نسل کی آبادی سے ہے۔ اس لڑکی نے چین میں بمشکل ایک مہینہ ہی گزارا۔ اس کے بعد اپنے خاوند کی قید سے فرار ہو کر وہ کسی طرح مقامی پولیس کے پاس پہنچ گئی اور پھر واپس ویتنام پہنچا دی گئی۔
کیاب اس وقت ویتنام کے سرحدی شہر لاؤ کائی میں انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والی خواتین کے لیے قائم کردہ ایک پناہ گاہ میں رہائش پذیر ہے۔ خبر ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس لڑکی نے کہا، ’’میری نظر میں اب میرا بھائی کوئی انسان تو بالکل نہیں رہا۔ اس نے اپنی بہن کو بیچ کر چین بھجوا دیا۔‘‘
ماہرین کے مطابق ایسی صورتحال کا سامنا صرف ویتنام کی خواتین کو ہی نہیں کرنا پڑتا بلکہ ایسے حالات کا شکار چین کے قریب ہی واقع کئی دیگر ملکوں کی بہت سی خواتین بھی بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر شمالی کوریا، لاؤس، میانمار اور کمبوڈیا کی خواتین کو بھی چینی مردوں کے ساتھ جبری شادیوں پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین میں ابھی بھی شادی شدہ جوڑوں کو صرف ایک بچے کی پیدائش کے قانون پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اکثر چینی خاندان اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان کے ہاں پیدا ہونے والا واحد بچہ بیٹی کے بجائے بیٹا ہونا چاہیے۔ یہ رجحان پچھلے کئی عشروں سے جاری ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج چین کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ملکی آبادی میں انتہائی حد تک جنسی عدم توازن پایا جاتا ہے۔ چین کی مجموعی آبادی میں مردوں کا تناسب عورتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ان حالات میں بہت سے چینی مردوں کو اپنے لیے ہموطن بیویاں دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کے مطابق چین میں کئی ملین مرد شہری ایسے ہیں جنہیں بیوی کے طور پر ان کی کوئی ہموطن خاتون مل ہی نہیں سکتی۔ یہ حقیقت چین میں غیر ملکی خواتین کی ٹریفکنگ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ویتنام کے سرحدی شہر لاؤ کائی میں ٹریفکنگ کا نشانہ بننے والی لڑکیوں اور عورتوں کے لیے قائم پناہ گاہ میں رہائش پذیر لڑکیوں اور عورتوں کی مجموعی تعداد درجنوں میں ہے۔ ان متاثرین کا تعلق ویتنام کے مختلف نسلی اور اقلیتی گروپوں سے ہے۔ ان سب کا کہنا ہے کہ ان کے رشتہ داروں، دوستوں یا بوائے فرینڈز نے انہیں دلہنوں کے طور پر چینی مردوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔ سولہ سالہ کیاب کا کہنا ہے کہ اس نے انسانوں کی اسمگلنگ کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ سب کچھ اس کے ساتھ بھی ہو جائے گا۔
جنوب مشرقی ایشیا میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے مطابق یہ بات متعدد مرتبہ دیکھی گئی ہے کہ غیر ملکی خواتین کو جبری شادیوں کے لیے منظم طریقے سے ٹریفکنگ کے ذریعے چین پہنچایا جاتا ہے۔ نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر فِل رابرٹسن کہتے ہیں، ’’چینی حکام کی طرف سے اس مسئلے پر زیادہ تر کوئی دھیان دیا ہی نہیں جاتا۔‘‘
چین میں ٹریفکنگ کی شکار خواتین کی مدد کرنے والی ایک تنظیم کا نام بلیو ڈریگن چلڈرنز فاؤنڈیشن ہے۔ یہ تنظیم سن 2007ء میں اپنے قیام کے بعد سے چین میں 71 خواتین کو بچانے میں کامیاب رہی ہے۔ ایسی غیر ملکی خواتین کو یا تو زرخرید بیویوں کے طور پر یا پھر جسم فروشی کے مراکز میں کام کرنے کے لیے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ بلیو ڈریگن چلڈرنز فاؤنڈیشن کے بانی مائیکل بروسوفسکی کہتے ہیں کہ ایسی لڑکیوں کو عام طور پر پانچ ہزار امریکی ڈالر تک کے عوض بیچ دیا جاتا ہے۔
کمیونسٹ نظام حکومت والے ہمسایہ ملکوں چین اور ویتنام کی مشترکہ سرحد زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس سرحد کی لمبائی 1350 کلو میٹر طویل ہے۔ اس بارڈر کی ہر جگہ پر مستقل نگرانی بہت مشکل ہے۔ اسی لیے جرائم پیشہ افراد کو ایسی خواتین کو ویتنام سے اسمگل کر کے چین پہنچانے میں زیادہ مشکلات پیش نہیں آتیں۔