دھماکوں کے اگلے روز لاہور میں سوگ کا سماں
2 ستمبر 2010شہر بھر میں سکیورٹی سخت ہے اور سڑکوں پر ٹریفک بہت ہی کم ہے۔ جائے حادثہ پر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے جائے حادثہ کا دورہ کر کے شواہد اکٹھے کئے ہیں، خود کُش حملہ آوروں کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی لئے جا رہے ہیں جبکہ اُن کے فنگر پرنٹس بھی نادرا کے پاس بھجوا دئے گئے ہیں۔
اب تک چوبیس لاشیں پوسٹ مارٹم کے بعد وُرثاء کے حوالے کی جا چکی ہیں۔ آٹھ افراد کی نماز جنازہ آج سہ پہر ناصر باغ میں ادا کی گئی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کسی بھی نمایاں حکومتی شخصیت نے نہ تو نماز جنازہ میں شرکت کی ہے اور نہ ہی کوئی زخمیوں کی عیادت کے لئے ہسپتالوں میں گیا ہے۔
سو زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتالوں سے فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ سو سے زائد افراد بدستور شہر کے مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ سروسز ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں ایک بارہ سالہ لڑکا زیرِ علاج ہے، جس کے والدین کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد
ادارت: امجد علی