’خیبر پختونخوا میں ترقیاتی سرگرمیوں کا متاثر ہونا خطرناک ہو گا‘
25 اگست 2010خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد پر اٹھنے والے اخراجات نے صوبائی حکومت کو اپنے صوبے میں سن 2010ء کے لئے ترقیاتی اخراجات معطل کرنے پر مجبور کر دیا ہے حالانکہ عسکریت پسندی بدستور شدت اختیار کئے ہوئے ہے۔’’اگر ہم اور ہماری حکومت اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی تو یہ چیز ہمارے صوبے کے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستان اور پورے خطے کے لئے تباہ کن ثابت ہو گی۔‘‘ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے مزید کہا:’’یہ صوبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن صوبے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں ناکامی ہوئی تو پوری بین الاقوامی برادری کے لئے اِس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوں گے۔‘‘
عسکریت پسندوں کو نئے ساتھی اُن پاکستانی نوجوانوں کی صورت میں ملتے ہیں، جو حکومت سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں۔ اِن عسکریت پسندوں کی حوصلہ شکنی اور اُن کے خلاف جنگ میں عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے حکومت نے خیبر پختونخوا میں اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ وزیر اعلیٰ ہوتی نے کہا کہ سیلاب پر اُٹھنے والے اخراجات کے باعث اب یہ منصوبے تاخیر کے شکار ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے بتایا کہ سیلاب کے باعث اُنہوں نے سترہ ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک ساتھ دونوں محاذوں پر جمے رہنا حکومت کے لئے بہت مشکل ہے۔
ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب نے پورے کے پورے دیہات، شاہراہوں اور پُلوں کو صفحہء ہستی سے مٹا دیا ہے جبکہ ملازمتوں کے بھی لاتعداد مواقع ختم ہو گئے ہیں۔ یہ صورتِ حال طویل المدتی بنیادوں پر حکومت پر معاشی دباؤ میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گی۔ دوسری جانب متاثرین کی مدد کے لئے سست رفتار اقدامات کی وجہ سے حکومت کو سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس خلا کو پُر کرنے کے لئے بہت سی ایسی اسلامی تنظیمیں میدان میں اُتر آئی ہیں، جن میں سے کچھ کے مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔
خیبر پختونخوا کی حکومت صرف طالبان کے سابقہ گڑھ وادیء سوات میں ہی ملازمتوں کے نئے مواقع، اقتصادی ڈھانچے کی تعمیرِ نو اور سکیورٹی فورسز کے استحکام کے لئے کم از کم ایک ارب ڈالر خرچ کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شمال مغربی علاقوں کی تعمیر نو پر 180 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
ہوتی نے بتایا کہ چند ایک انتہائی زیادہ متاثرہ اضلاع میں پانی وہ تمام ترقی چند گھنٹوں کے اندر اندر بہا کر لے گیا، جو اِس صوبے نے گزرے تیس تا چالیس برسوں کے دوران کی تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ سیلاب طالبان کے لئے پھر سے اپنے قدم مضبوط کرنے کا ایک موقع ہیں اور وہ ایسی کوششیں کر بھی رہے ہیں لیکن حکومت سیلاب سے متاثرہ افراد تک پہنچنے اور اُن کی ہر طرح سے مدد کرنے کی بھرپور کوششیں کرے گی تاکہ عسکریت پسندوں کو اپنے اکھڑے قدم دوبارہ جمانے کا موقع نہ مل سکے۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی
ادارت: گوہر نذیر گیلانی