دہشت گردی اورلینڈو اور پیرس میں، ساری نظریں پاکستان پر
15 جون 2016اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے ایک نائٹ کلب پر خونریز حملے کے بعد ٹرمپ نے رواں ہفتے نیو ہیمپشائر میں اپنے ایک خطاب میں تارکینِ وطن کی جانب سے درپیش سنگین خطرات کا ذکر کیا۔ اُنہوں نے گزشتہ سال نومبر میں کیلیفورنیا میں پیش آنے والے اُس واقعے کا حوالہ دیا، جس میں چَودہ افراد کی ہلاکت کے بعد ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے ایک پاکستانی خاتون اور اُس کے امریکا میں پیدا ہونے والے شوہر کو ’خلافت کے سپاہی‘ قرار دیتے ہوئے سراہا گیا تھا۔
جہاں امریکا میں دہشت گردی کے ضمن میں ایک بار پھر پاکستان کا حوالہ سامنے آ رہا ہے، وہیں مختلف یورپی ممالک میں بھی دہشت گردی کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں پاکستان کا ذکر سننے میں آ رہا ہے۔
رواں ہفتے پیر کے روز فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے نواح میں ایک پولیس اہلکار اور اُس کی بیوی کو قتل کر دیا گیا تھا اور اس حملے کی ذمے داری ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے ایک ایسے شخص نے قبول کی تھی، جس کے پاکستان کے ساتھ تعلق رکھنے والے ایک جہادی گروپ میں کردار کے بارے میں فرانسیسی انٹیلیجنس اداروں کو بھی پتہ تھا۔
اسی سال اپریل میں آسٹریا کے دفترِ استغاثہ نے بتایا تھا کہ وہ ایک پاکستانی شہری سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں، جسے گزشتہ سال نومبر میں پیرس میں ہونے والے اُن حملوں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا، جن کی ذمے داری ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی تھی۔
اس سال کے اوائل میں واشنگٹن حکومت نے آئی ایس سے قربت رکھنے والے اور افغانستان اور پاکستان میں قائم ’خراسان گروپ‘ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔
اسلام آباد حکومت اس بات پر مُصر ہے کہ پاکستان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کا کوئی وجود نہیں ہے۔ واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں پاکستان سینٹر کے ڈائریکٹر مارون جی وائن باؤم جیسے تجزیہ نگاروں کے خیال میں آئی ایس کو پہلے سے پاکستان میں موجود طاقتور انتہا پسند گروپوں کی موجودگی کی وجہ سے وہاں اپنے قدم جمانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ امریکا میں قائم مڈل ایسٹ فورم کے ریسرچ فیلو ایمن جواد التمیمی کے خیال میں بھی آئی ایس اس قابل نہیں ہے کہ پاکستان کی بقا کے لیے خطرہ بن سکے۔
اب تک اندازاﹰ سات سو پاکستانی نوجوان آئی ایس میں شمولیت کے لیے پاکستان سے جا چکے ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز آئی ایس کے لیے تعلیم یافتہ نوجوان بھرتی کرنے والے نیٹ ورکس کے خلاف مختلف آپریشنز میں اب تک سینکڑوں افراد کو گرفتار کر چکی ہیں۔