دہشت گردی کے ردعمل میں خوف اور نفرت ایک غلطی، یورپی کلیسا
13 جنوری 2017فرانسیسی دارالحکومت سے جمعہ تیرہ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات مختلف ملکوں میں بشپس کانفرنسوں کی یورپی کونسل کی طرف سے پیرس منعقدہ پانچویں یورپی کیتھولک آرتھوڈوکس فورم کے اختتام پر آج جاری کردہ ایک بیان میں کہی گئی۔
بیان کے مطابق یورپی کلیسائی رہنماؤں نے اس دہشت گردی کے پس منظر میں، جس کا جرمنی، بیلجیم اور فرانس سمیت مختلف یورپی ملکوں کو سامنا ہے، یورپی عوام سے کہا کہ وہ دہشت گردانہ حملوں کے ردعمل میں اپنے اندر پیدا ہونے والے خوف پر قابو پائیں کیونکہ خوف سے نفرت جنم لیتی ہے، یہ انسانوں کو دوسرے انسانوں کو رد کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور اس کا نتیجہ بنیاد پرستی کی صورت میں نکلتا ہے۔
جرمنی سے مذہبی شدت پسند مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات
استنبول حملہ: دہشت گردی کے خلاف جنگ آخر تک، ایردوآن
’جرمن مسلم تنظیمیں بھی اسلام پسندانہ دہشت گردی پر نظر رکھیں‘
کرسمس مارکیٹ پر حملہ: ایک دن، جو جرمنی کو بدل دے گا، تبصرہ
اس بیان میں یورپی بشپس کی کانفرنسوں کی اس کونسل (CCEE) کے صدر کارڈینل انگیلو باگناسکو نے کہا، ’’یورپی معاشروں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مختلف سماجی گروپوں یا ریاستوں کی خود کو محصور کر لینے کی سوچ اور رجحانات سے دور رکھیں اور اپنے اندر پیدا ہونے والے خوف کے جذبات پر قابو پائیں۔‘‘
اسی دوران یورپی آرتھوڈوکس مسیحیوں کے ایک اعلیٰ نمائندے کے طور پر برسلز کے آرتھوڈوکس میٹروپولٹ اتھیناگوراس نے بھی یہی کہا کہ سماجی عدم تحفظ کے احساس اور دہشت گردی کے ماحول میں کلیساؤں کو اپنی وہ تمام کوششیں کرنا چاہییں، جن کی مدد سے یورپی انسانی اور معاشرتی اقدار کا تحفظ کیا جا سکے۔
یورپی معاشروں میں حالیہ برسوں میں کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کے اجتماعی اثرات اور ان کے نتیجے میں نسل پرستانہ سوچ اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کی مقبولیت میں اضافے جیسے عوامل کے خلاف خبردار کرتے ہوئے اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دہشت گردی ایک چیلنج ہے، جس کا جواب ’تقسیم کے بجائے اتحاد‘ ہونا چاہیے۔
اس کلیسائی بیان کے مطابق یورپی عوام کو دہشت گردوں سے خوف کے مقابلے میں خود اپنے خوف زدہ ہونے کی حالت سے خوف کھانا چاہیے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’ایسے معاشرے جو خوف کی فضا، شکوک و شبہات اور بداعتمادی کی بنیادوں پر کام کرتے ہیں، زوال کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘