ردعمل کی محدود صلاحیت، مشرق وسطی کے مسیحیوں کے لئے مسئلہ
4 جنوری 2011بحرین کے بین الاقوامی ادارہ برائے اسڑیٹیجک اسٹڈیز سے وابستہ ماہر ایملی ہوقائم کہتے ہیں کہ القاعدہ کی نظر میں مسیحی زیادہ آسان اورکمزور ہدف ہیں۔ اس لئے مشرق وسطی کے مسیحیوں کو نشانہ بنانا القاعدہ کی نئی حکمت عملی ہے۔ ہوقائم کے مطابق اہل تشیع افراد پرحملہ کرنا ان کوسیاسی طور پر مہنگا پڑ جاتا ہے۔ وہ اس لئے کہ شعیہ ملیشیا نہ صرف بدلہ لینے بلکہ بھاری نقصان پہنچانے کی بھی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسری جانب امریکی افواج پرحملے کی صورت میں بھی بھرپور جواب کا خطرہ موجود ہے۔ ایسی صورت میں القاعدہ کو مسیحیوں پرحملہ کرنا زیادہ آسان لگتا ہےکیونکہ خطے میں ان کی جانب سے جوابی ردعمل ممکن نہیں ہے۔
بنیاد پرست اسلامی تحریکوں کا قریب سے مطالعہ کرنے والے یمنی ماہر سعید الغماہی کا کہنا ہےکہ القاعدہ کے مطابق ’’جو مسلمان نہیں ہےوہ واجب القتل ہے‘‘۔ الغماہی مزید کہتے ہیں کہ القاعدہ کا مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بے چینی پیدا کرنےکے علاوہ فرقہ ورانہ فسادات پھیلانا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہےکہ شاید وہ پس پردہ مصر میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنا چاہتےہوں کیونکہ القاعدہ ہر اس ملک میں افرا تفری پھیلانا چاہتی ہے، جس میں وہ قدم جمانے میں ناکام ہو رہی ہو۔
دوسری جانب دبئی میںInstitute for Near East and Gulf Military Analysis کے سربراہ ریاد خاواجی کا کہنا ہےکہ صرف قاہرہ میں ہونے والے ایک حملےکو بنیاد بنا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ القاعدہ نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہےکیونکہ ابھی تک اسامہ بن لادن یا دیگر کسی رہنما کی جانب سے واضح انداز میں مسیحیوں پرحملوں کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مشرق وسطی میں مسیحیوں کونشانہ بنانے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انتشار پھیل سکتا ہے، جو صرف اسرائیل کے لئے فائدہ مند ہوگا۔
واضح رہےکہ سالِ نوکے موقع پر مصرکے قبطی گرجا گھر پر ہونے والے حملے میں21 افراد ہلاک جبکہ 79 افراد زخمی ہوگئے تھے۔گوکہ گرجا گھر پرحملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے تاہم قاہرہ نےبلاواسطہ طور پر واقعے میں القاعدہ کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال اکتوبرکے مہینے میں بھی بغداد کے ایک گرجا گھر پر القاعدہ سے منسلک تنظیم اسلامک اسٹیٹ آف عراق کے حملے میں 46 مسیحی باشندوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: عدنان اسحاق