روہنگیا مسلمانوں پر مظالم، میانمار کے جرنیلوں پر پابندیاں
26 جون 2018یورپی یونین کے رکن ملک لکسمبرگ کے دارالحکومت لکسمبرگ سٹی اور میانمار میں ینگون سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے یہ پابندیاں مجموعی طور پر میانمار کی فوج اور پولیس کے سات سینئر اہلکاروں پر لگائی گئی ہیں۔ ان میں میانمار کی فوج کا وہ جنرل بھی شامل ہے، جو ریاست راکھین میں روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف اس فوجی آپریشن کا کمانڈر تھا، جس کی وجہ سے سات لاکھ سے زائد روہنگیا اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
یورپی یونین کی طرف سے ان پابندیوں کا اعلان پیر پچیس جون کی شام کیا گیا اور اس اعلان کے محض چند ہی گھنٹے بعد میانمار کی فوج کی طرف سے یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ جن فوجی جرنیلوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان میں سے ایک کو کل پچیس جون ہی کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ انہی سات اعلیٰ سکیورٹی اہلکاروں میں سے ایک اور جرنیل نے ملکی فوج سے گزشتہ ماہ مئی میں اس وقت علیحدگی اختیا رکر لی تھی، جب اسے اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
یورپی یونین نے میانمار کے ان تمام اہلکاروں کے یورپ میں ممکنہ اثاثے منجمد کر دینے کے علاوہ ان کے یورپی یونین میں داخل ہونے پر بھی پابندیاں تو عائد کر دی ہیں لیکن ساتھ ہی میانمار کو یونین کے رکن کسی بھی ملک کی طرف سے ہتھیار فراہم کرنے پر پہلے سے عائد پابندی میں توسیع بھی کر دی ہے۔ دفاعی حوالے سے اس پابندی کی وجہ سے یورپی یونین نے میانمار کی فوج کے ساتھ کسی بھی اشتراک عمل اور تربیتی پروگرام کو قانوناﹰ ممنوع قرار دے رکھا ہے۔
روئٹرز کے مطابق برسلز کی طرف سے عائد کردہ یہ پابندیاں میانمار کے حوالے سے یونین کی پالیسی میں ایک واضح تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس لیے کہ 2012ء میں جب یہ ملک طویل عرصے تک فوجی اقتدار میں رہنے کے بعد بتدریج جمہوری طرز حکومت کی طرف بڑھ رہا تھا، تو یورپی یونین نے اس ملک کے خلاف عائد کچھ پابندیاں نرم کر دی تھیں۔
لیکن ان نئی پابندیوں کے ساتھ، جن کے عائد کیے جانے کی خبریں اپریل میں ہی ملنا شروع ہو گئی تھیں، یورپی یونین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ میانمار کے فوجی دستے راکھین میں روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف ناقابل تردید مظالم اور جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔
میانمار میں روہنگیا مسلم اقلیتی آبادی زیادہ تر ریاست راکھین ہی میں رہتی تھی اور وہاں ملکی فوج نے اس مسلم برادری کے خلاف جو طویل آپریشن کیا تھا، اسے اقوام متحدہ نے کھلے لفظوں میں ’نسلی تطہیر‘ قرار دیا تھا۔
م م / ع ا / روئٹرز