سپریم کورٹ فیصلے پر حکومت برہم، پی ٹی آئی کی طرف سے خیرمقدم
4 اپریل 2023عدالت عظمیٰ نے آج بروز منگل پنجاب اسمبلی کے انتخابات آٹھ اکتوبر تک ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکشن کو کالعدم قرار دے دیا۔ یہ نوٹیفیکیشن بائیس مارچ کو جاری کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب میں چودہ مئی کو پولنگ کرانے کا حکم دیا ہے۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل تھے۔
اس مقدمے میں فیصلہ پیر کے روز محفوظ کیا گیا تھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہےکہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے آٹھ اکتوبر کی تاریخ دے کر اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔ فیصلے میں حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دس اپریل تک الیکشن کمیشن کواکیس ارب روپے کا فنڈ جاری کرے۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن گیارہ اپریل کو سپریم کورٹ میں فنڈ مہیا کرنے سے متعلق رپورٹ جمع کرائے۔
کیا زرداری ’سرپرائز‘ دے سکتے ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف کا خیرمقدم
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے انصاف کی جیت قرار دیا ہے۔ تحریک انصاف کے ایک رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس فیصلے پر عمل نہیں کرتی تو پھر توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ آئین اور قانون کی فتح ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم اس پر جشن فتح منائیں گے۔‘‘
متوقع فیصلہ
اس فیصلے سے بظاہر ن لیگ کے حلقوں میں مایوسی نظر آتی ہے لیکن کچھ رہنماوں کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ ن لیگ کے ایک سابق سینیٹر سلیم ضیا کا کہنا ہے کہ کئی وجوہات کی بنا پر یہ فیصلہ متوقع تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فل کورٹ بینچ کی اپیل کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے عوامل تھے، جس سے یہ اشارے مل رہے تھے کہ یہی فیصلہ ہوگا۔‘‘
سلیم ضیا کے مطابق پارٹی میں صلاح و مشورے شروع ہوگئے ہیں، ''ابھی تفصیلی فیصلہ آنا ہے۔ اس کے بعد پارٹی تمام قانونی اور آئین راستے اپنائے گی اور اس فیصلے کو چیلنج کرے گی۔‘‘
واضح رہے کہ کئی وکلا تنظیموں نے بھی اس فیصلے کے حوالے سے فل کورٹ بنانے کی درخواست کی تھی، جس پر وکلا برادری کے کچھ حصے ناراض نظر آتے ہیں۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اختر حسین ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف وکلا برادری میں بہت غصہ ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں اس فیصلے پر شدید تحفظات ہیں۔ اعجاز الحسن اس بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے پھر بھی انہیں لیا گیا۔ تمام بار کونسلز کی اپیل کے باوجود فل کورٹ بینچ نہیں بنایا گیا۔ تو ہم اس فیصلے کی بھرپور مخالفت کرینگے۔‘‘
دوسری طرف حکومت نے بھی اس فیصلے پر شدید رد عمل دیا ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج بروز منگل ہوا۔ کابینہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اقلیتی ہے، جسے مسترد کیا جاتا ہے۔
کابینہ کے اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ فیصلہ قابل عمل نہیں۔ مریم نواز نے کابینہ کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ صرف فیصلہ مسترد کرنا کافی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر لاڈلے کو مسلط کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔